جناب لیاقت بلوچ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
پروفیسر خورشید احمد ا اپنی ذات میں انجمن تھے
اور ایک بہت ہی ہمہ گیر شخصیت تھے
فطرت کے عین مطابق مشرق میں طلوع ہوئے اور مغرب میں غروب ہو گئے
کشمیر،افغانستان اور فلسطین کے حوالے سے بھی ان کی شخصیت ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتی تھی
وہ بہت خوش نصیب تھے کہ انھوں نے مولانا مودودیؒ کا قرب حاصل کیا، جو ان کے لیے ایک بڑی تربیت اور رہنمائی کا ذریعہ بنا
پروفیسر صاحب ہم سب کے لیے ایک روشنی کا ذریعہ ہیں، وہ ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے
وہ جہاں بھی رہے انھوں نے پوری ٹیم تیار کی، پوری اجتماعیت کو اپنے گرد اکٹھا کیا، تربیت بھی کی، ذہن سازی بھی کی
سید مودودیؒ کی پوری فکر کو جس شان دار اور بااعتماد طریقے سےانہوں نے ایک رنگ اور رخ دیا اس کا اپنا ایک بڑا مقام ہے
ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور اللہ نے جتنی مہلت عمل دی ہے اس کی تکمیل کے بعد ہر شخص نے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے، لیکن خوش نصیب وہی لوگ ہیں کہ جو اپنی زندگی اللہ کے احکامات کے تابع رکھتے ہیں، اللہ کی بندگی بجالاتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک کے مطابق اپنی ذات پر بھی اور ساتھ ہی ساتھ دین کی اقامت کے لیے بھی جدوجہد کرتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے اور ایک بہت ہی ہمہ گیر شخصیت تھے۔ فطرت کے عین مطابق مشرق میں طلوع ہوئے اور مغرب میں غروب ہو گئے۔ پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی ہی نہیں پورے عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے لیے بہت ہی قابل قدر شخصیت تھے۔ انھوں نے ہر محاذ پر اقامت دین کی جدوجہد کو جاری رکھا اور اپنے علم اور اس پر ایک مکمل گرفت کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنی اہمیت کو تسلیم کروایا۔ وہ ماہر معاشیات بھی تھے، وہ ماہر سماجیات بھی تھے۔ سیاست اور پارلیمنٹ کے لیے انھوں نے بہت بڑا کام کیا۔ کشمیر،افغانستان اور فلسطین کے حوالے سے بھی ان کی شخصیت ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتی تھی۔
جماعت اسلامی ایک دینی، نظریاتی، فلاحی اور ہمہ گیر اور ہمہ پہلو خدمات دینے والی جماعت ہے پروفیسر صاحب نے مولانا مودودیؒ کی فکر کو آگے بڑھانے کے لیے مدلل تحریری و تصنیفی خدمات انجام دیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی تشکیل اور تربیت کے حوالے سے لاتعداد لوگ ہیں جو مولانا مودودیؒ کے ساتھ وابستہ ہوئے اور انھوں نے جماعت اسلامی کے اس پورے پروگرام اور پیغام کو عامۃ الناس تک پہنچانے کے لیے اپنی عملی جدوجہد کے ساتھ اور اپنی فکری اور قلمی جدوجہد کے ساتھ کردار ادا کیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مولانا مودودیؒ کے ساتھ اگرپوری جماعت میں اپنی تحریک اور عالمی اسلامی تحریکوں میں کوئی دوسرا نام ابھرتا ہے اور ذہنوں پر اس کا ایک پورا تصور واضح ہوتا ہے تو وہ پروفیسر خورشید صاحب ہیں۔ انھوں نے ہر اعتبار سے مولانا مودودیؒ کے پیغام، فکر اور لٹریچر اور ان کی پوری تحریک کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ اور اس اعتبار سے وہ بہت خوش نصیب تھے کہ انھوں نے مولانا مودودیؒ کا قرب حاصل کیا، جو ان کے لیے ایک بڑی تربیت اور رہنمائی کا ذریعہ بنا۔ 1953ء میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بنے۔
پروفیسر صاحب ہم سب کے لیے ایک روشنی کا ذریعہ ہیں، وہ ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا پورا ایک امیج اور کردار ہے اور اس اعتبار سے ہم سب کے لیے ایک بڑی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ایک نوجوان کی حیثیت سے بھی پروفیسر صاحب نے پاکستان بھر کے طلبہ اور نوجوانوں کی اپنے دور میں قیادت کی۔ طلبہ تحریک کے استحکام، اس کی نظریاتی پختگی، اس کے نصب العین، لائحہ عمل اور آنے والے حالات میں اسلامی جمعیت طلبہ کو ایک رخ دینے میں پروفیسر خورشید احمد کا کردار ہمیشہ روشن رہے گاور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا رہے گا۔


وہ مولانا مودودیؒ کے جاری کردہ پرچہ ترجمان القرآن کے ایک طول مدت سے ایڈیٹر تھے اور اس کے معیار کو بھی بہت بلند کیا۔ بہرحال پروفیسر خورشید احمد کا دنیا سے رخصت ہو جانا یہ تو ایک قدرت کا عمل ہے، اللہ کے فیصلے ہیں، لیکن وہ بہت ہی کامیاب زندگی گزار کر گئے۔ ان کا انتقال صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے، دینی معاشی، سماجی محاذ پر اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ اور نقصان ہے اور ایک اجتماعی صدمہ ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پوری فکر کو جس شان دار اور بااعتماد طریقے سے پروفیسر خورشید احمد نے ایک رنگ اور رخ دیا اس کا اپنا ایک بڑا مقام ہے۔ وہ جہاں بھی رہے انھوں نے پوری ٹیم تیار کی، پوری اجتماعیت کو اپنے گرد اکٹھا کیا، تربیت بھی کی، ذہن سازی بھی کی، کردار سازی بھی کی اور افراد کو پورا اعتماد بھی دیا وہ اپنے ہر ساتھی کی عزتِ نفس کو اور اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بڑے حوصلے اور ہمت کا ذریعہ بنے رہے۔
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز ادارے کا ایک ایسے وقت میں آغاز ہوا جب ہمارے ملک میں ایسے اداروں کی حیثیت ایک سرکاری اداروں کے ساتھ وابستہ رہنے میں تھی، لیکن الحمدللہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیزکو ایک بڑا ہی معتبر ادارہ بنایا۔ بیوروکریسی میں، پالیسی سازوں میں اور اس طرح سے جو بھی ایک علمی وجاہت رکھتے ہیں علم اور تحقیق اور سفارت کاری کی اپنے اندر مہارت رکھتے ہیں ان سب کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹیڈیز ایک بہت ہی شان دار رہنمائی کا ذریعہ ہے اور جب صحت نے کام کرنے سے جواب دے دیا تو اس وقت بھی جماعت اسلامی کی بے شمار ذمہ داریوں پر فائز تھے اس وقت انھوں نے امیر جماعت اسلامی کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں، ہم بھی اس میں شریک رہے اور ایک لمبی فہرست انھوں نے تیار کی ہوئی تھی کہ کون کون سے کام ان کے ذمے ہیں، کن کن اداروں کے اندر وہ موجود ہیں، کہاں کہاں وہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنی دانست کے مطابق انھوں نے ہر چیز کو تجویز کیا کہ کون کس جگہ پر ہو اور کس طریقے سے اس کی Planning ہونی چاہیے۔ الحمدللہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اس وقت بھی ایک معتبر ادارہ ہے جہاں جدید نظریات اور دنیا بھر کی تحقیقات جاری ہیں۔


اسی طرح پروفیسر خورشید احمد کا وہ رول اور کردار جو سینیٹ آف پاکستان اور پارلیمنٹ میں ہے اس حوالے سے ان کی پوری گفتگو، ان کی تقاریر پارلیمنٹ کا ایک حسن تھا اور ایک طویل مدت تک انھوں نے خدمات انجام دیں۔ اسی طرح سے وہ یورپ میں رہے تو وہاں بھی یوکے اسلامک فاؤنڈیشن اور یوکے اسلامک مشن کی صورت میں بہت بڑی ٹیم انھوں نے تیار کی اور یورپ میں نظریاتی محاذ پر جتنے بھی لوگ تھے ان کے لیے بہت بڑا سورس آف انسپائریشن تھے اور وہ لوگوں کے لیے حقیقت میں بہت بڑا حوصلہ تھے۔ مجھے ذاتی طور پر بھی ان کے ساتھ نجم الدین اربکانؒ کی قیادت میں کئی ممالک کے پارلیمانی دوروں کا موقع ملا۔ وہاں مطیع اللہ نظامی شہید بھی ساتھ تھے۔ عبدالہادی اعوان بھی تھے۔ اسی طرح عبداللہ گل بھی تھے اور دیگر لوگ بھی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی موجودگی میں بھی پروفیسر خورشید احمدؒ کی گرفت تھی، معلومات تھیں اور تمام ایشوز پر ان کی پوری ایک کمانڈ تھی فرانس، ترکیہ اور جرمنی میں کہیں بھی ہم گئے ہر جگہ پر پروفیسر خورشید احمد نے ایک بہت ہی شان دار رول ادا کیا۔
پروفیسر خورشید احمد ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ ایک فرد اپنی ذات میں انجمن ہے، لیکن حقیت میں اللہ تعالیٰ نے انھیں جتنی صلاحیتیں دی تھیں وہ بہت ہی ایک گہرا سمندر ہے اور بے پناہ صلاحیتیں تھیں ان میں اور وہ تمام کی تمام اللہ کی رضا کے لیے، اللہ کے دین کے غلبے کے لیے، ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے، جمہوری اقدار کے پنپنے اور پوری تحریک کے کارکنان میں اسی مزاج، اسی طبیعت و اطوار کو اجاگر کرنے کے لیے پروفیسر خورشید احمدؒ نے عظیم کردار ادا کیا۔ ہم اللہ کی بارگاہ میں اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ اے اللہ! یہ تیرا نہایت ہی مخلص بندہ، یہ تیرے دین کا خادم بندہ ہے اس نے پوری زندگی محنت کے ساتھ تیرے دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کی۔ انسانوں کو سنوارنے کی کوشش کی۔ اے اللہ! ان کی آخرت کے تمام مراحل کو آسان کر دے اور تمام نیکیوں کو ان کے لیے اجر اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنا دے۔ یا اللہ ان کی مغفرت فرما، درجات بلند فرما دے، ان کے خاندان اور اولاد کو صبر جمیل عطا فرمائیں اور وہ حقیقی معنوں میں ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں۔