نوح ؑپر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے بس وہ لاچکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ۔ ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانا شروع کر دو ۔ اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا،یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں ۔نوحؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا ۔ اس نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں،عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی۔یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا ’’ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی۔ ۔ ۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں ۔‘‘ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح ؑکے ساتھ ایمان لائے تھے۔نوح ؑ نے کہا ’’سوار ہو جاؤ اس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی ، میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے‘‘۔کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی ۔ نوح ؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح ؑنے پکار کر کہا بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔اس نے پلٹ کر جواب دیا ’’میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔‘‘ نوح ؑ نے کہا ’’آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔‘‘ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا ۔ سورہ ہود آیت نمبر 36تا 43 تفہیم القرآن سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ
حقوق العباد میں کوتاہی ،سخت ہلاکت کا باعث
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جس آدمی پر بھی اپنے (مسلمان ) بھائی کا اس کی عزت و آبرو سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کو ئی حق ہو (یعنی اس کی بے عزتی کرکے یا کوئی اور زیادتی کرکے اس پر ظلم کیا ہو) تو اسے چاہیے کہ آج ہی (دنیا میں) اس کا ازالہ کرکے اس حق سے عہدہ بر آ ہوجائے ،قبل اس کے کہ وہ دن ہوآجائے جس میں (ازالے کے لیے ) کسی کے پاس دینار و درہم نہیں ہوںگے۔(اور وہاں ازالے کی صورت یہ ہوگی کہ ) اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں گے تو وہ اس کے ظلم کے بہ قدر لے لیے جائیں گے(اور مظلومین میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔) اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو اس کے ساتھی (صاحب حق) کی برائیاں لے کر اس پر لاد دی جائیں گی۔‘‘ (بخاری)
فائدہ:اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کی گئی دست درازیاں ،اگر انہیں دنیا میں معاف نہیں کروالیا گیا یا ان کی تلافی نہ کی گئی تو آخرت میں اس کا معاملہ نہایت خطرناک ہوگا جیسا کہ اس کی تفصیل اس حدیث میں ہے۔اس لیے حقوق العباد میں کوتاہی ،جس کی انسان پروانہیں کرتا،سخت ہلاکت کا باعث ہے۔
حاکم کے لئے حضورﷺ کا فرمان
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں،کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے مکان کے اندر سنا کہ آپ ﷺ فرمارہے تھے ،کہ اے اللہ ! جس شخص کو میری امت کا کسی کام کا حاکم اور نگران بنایا گیا ہو ،اور وہ میری امت پر مشقت کا معاملہ اختیار کرے تو بھی اس کو مشقتوں میں مبتلا کردے،اور جو شخص میری امت کے کسی کام کا عہدہ دار ہو، اور وہ ان پر نرمی کرے ،تو توبھی اس پر نرمی کر (مسلم )۔