آدھی روٹی

تحریر آمنہ قاسم

وہ ایک یہودی ربی خاندان کا چشم وچراغ تھا۔دادا یہودی عالم تھا اور باپ ایک وکیل۔اس کا باپ اسے سائنس دان بنانا چاہتا تھا مگر اسے نیچرل سائنسز سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔پھر ایک دن وہ یونیورسٹی کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر برلن چلا جاتا ہے۔گھر والوں سے بغاوت کر کے گھر چھوڑنے اور جاب نہ ملنے کی وجہ سے وہ مالی پریشانی سے بھی گزرتا ہے مگر ہمت نہیں ہارتا۔کبھی روزگار ملتا ہے اور کبھی نہیں۔بالآخر اسے ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر رکھ لیا جاتا ہے۔ ایک دن اسے اپنے ماموں ڈاکٹر ڈوریان(Dorian)کا خط ملتا ہے جس میں وہ اسے بیت المقدس آنے کی دعوت دیتا ہے۔ڈاکٹر ڈوریان بیت المقدس کے ایک ہسپتال میں نفسیاتی معالج ہے۔تنہائی کی زندگی میں آمدن وخرچ کے علاوہ وہاں اس کا کوئی مشغلہ نہیں اس لیے وہ اپنے بھانجے کو یہ کہہ کر اپنے پاس بلاتا ہے کہ تمھارے آنے جانے کے اخراجات میرے ذمہ ہوں گے چند ماہ اکٹھے گزاریں گے اور جب تمھارا دل چاہے تم واپس برلن چلے جانا۔

اپنے ماموں کی دعوت پر لیوپولڈ ویس(Leopold Weiss)،جو اب ایک صحافی ہے،اپنی جاب سے کچھ دن کی چھٹی لے کر بیت المقدس روانہ ہو جاتا ہے۔یہ 1922 کا زمانہ ہے اور اس کی عمر بائیس سال ہے۔ بحری جہاز اور پھر ٹرین کے سفر کے ذریعے وہ بیت المقدس پہنچتا ہے مگر اس سے پہلے ٹرین کے سفر کے دوران اس کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو اس کی زندگی کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔عربی تہذیب،جسے اسلام نے اخلاق کے ایک نئے سانچے میں ڈھالا،کی ایک جھلک اس کے دل کو ایک نئے احساس سے روشناس کرتی ہے۔وہ لکھتا ہے

”ہماری ٹرین صحرائے سینا سے گزر رہی تھی،میں اس وقت انتہائی تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔رات کو صحرا کی ٹھنڈک اور ریتلے ٹیلوں پرٹرین کی مسلسل حرکت اور گھڑگھڑاہٹ کی وجہ سے ایک لمحے کے لیے بھی میری آنکھ نہ لگ سکی۔میرے سامنے والی سیٹ پر ایک بدوی عرب اپنی بڑی سی چادر میں لپٹا ہوا بیٹھا تھا۔وہ بھی اپنے مفلر کے باوجود سردی سے کانپ رہا تھا،وہ پالتی مارے ہوئے سیٹ پر بیٹھا تھا،اس کے گھٹنے پر اس کی تلوار رکھی تھی،جس کی نیام پر سونے کا کام تھا،صبح ہونے لگی تھی اور میں باہرٹیلوں کے آثار اور ناگ پھنی کی جھاڑیاں دیکھ سکتا تھا۔” ٹرین صحرا سے گزر رہی ہے اور چھوٹے چھوٹے سٹیشن آرہے ہیں جہاں ٹرین تھوڑی دیر کے لیے رکتی ہے وہاں وہ تہذیب کی ایک ایسی جھلک دیکھتا ہے جو ایک یورپین کے لیے حیران کن ہے۔ وہ لکھتا ہے

”ٹرین کئی بار چھوٹے چھوٹے سٹیشنوں پر رکی جو عام طور پر لکڑی کے بیرک کی طرح ہوتے تھے،سانولی صورت والے لڑکے اور بچے جن کے جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے تھے،ادھر ادھر اچھل کود کر رہے تھے اور مسافروں کے ہاتھ انجیر،ابلے انڈے اور روٹی فروخت کر رہے تھے۔میرے سامنے بیٹھا بدوی اٹھا اور اپنا مفلر کھولا،پھر کھڑکی کھولی،اس کا رنگ سانولا تھااور چہرہ ستواں تھا،ان عقابی چہروں میں سے ایک چہرہ جو آہنی عزم اور قوت ارادی کے ساتھ ہمیشہ آگے کی طرف دیکھتے ہیں اس نے ایک روٹی خریدی اور واپس ہونے لگا۔جب وہ بیٹھنے جا رہا تھا اسوقت اس کی نگاہ مجھ پر پڑی،کچھ کہے بغیر اس نے روٹی کے دو ٹکڑے کیے اور ایک مجھے دینے لگا۔جب اس نے میرا تردد اور تعجب دیکھا تو مسکرایا،اس کی مسکراہٹ بھی اس کے چہرے پر اسی طرح موزوں تھی جس طرح عزم اور قوت ارادی،پھر اس نے ایک لفظ کہا جو اس وقت تو میں نہیں سمجھ سکا،لیکن اب خوب سمجھتا ہوں تفضل،میں نے وہ ٹکڑا لے لیا اور سر کے اشارے سے اس کا شکریہ ادا کیا۔

ایک مسافر جو ترکی ٹوپی کے علاوہ باقی تمام یورپین لباس میں تھا اور کوئی متوسط درجے کا تاجر معلوم ہورہا تھا،رضاکارانہ طور پر ترجمہ کی پیشکش کی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا

”یہ کہتے ہیں کہ آپ بھی مسافر ہیں اور میں بھی مسافرہوں اور ہم دونوں کا راستہ ایک ہی ہے۔”

جب میں اس معمولی واقعہ پر غور کرتا ہوں تو مجھے خیال ہوتا ہے کہ عربی اخلاق سے میری وابستگی اور محبت کی بنیاد اس سے پڑی تھی،اس بدو کے رویہ میں جس نے اجنبیت کی تمام دیواروں کے باوجوداپنے رفیق سفر کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی آدھی روٹی اس کو دے دی،انسانیت کی ایک ایسی تصویر اور جھلک جو ہر بناوٹ اور تکلف سے پاک تھی”۔

محمد اسد کی کتاب روڈ ٹو مکہ پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ ہماری اقدار کتنی سادہ ودلنشیں ہیں۔ہمارا دین تو اجتماعی کفالت کا دین ہے جو کہتا ہے کہ اپنا دل پسند مال اللہ کی محبت میں اپنے رشتہ داروں،یتیموں مسکینوں مسافروں،قیدیوں،غلاموں اور مدد مانگنے والوں پر خرچ کرنا اصل نیکی ہے۔

اور ہم ہیں کہ تصنع،نمائش،لوگ کیا کہیں گے کے چکروں میں۔۔ پڑ کر ذہنی سکوں کھو رہے ہیں۔
سچ ہے نعمتیں تقسیم ہوں تو برکتیں آتی ہیں۔آئیے! جو نعمتیں اللہ نے دی ہیں ان میں دوسروں کو شریک کریں۔

٭٭٭

آمنہ قاسم صاحبہ اسلام آباد کالج میں پروفیسر ہیں۔

کشمیر الیوم کیلئے لکھتی ہیں