آزادی کا متلاشی شہید نذیر احمد گاندر بلی

ابو ریحان مقصود

ماہ شعبان1445 ھ بمطابق29 فروری2024 ء ؁کو ہمیں داغ مفارقت دے کر آخری منزل کی طرف روانہ ہوئے
الحمد اللہ وکفیٰ و سلامـ علی عبادہ الذی لا صفیٰ امابعدکل نفصِِ ذائقۃ الموت وانما توفون اُجُورَکم یوم القیامۃ فمن احزح عن النار واُدخل الجنتہ فقد فاذ وماالحیاۃ الدنیاالا متاع الغرور(القرآن)
وقال النبیﷺ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی، فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی دُنْیَا یُصِیبُہَا أَوْ إِلَی امْرَأَۃٍ یَنْکِحُہَا، فَہِجْرَتُہُ إِلَی مَا ہَاجَرَ إِلَیْہِ ۔
میں جھکا نہیں میں بکا نہیں نہ لڑکھڑا کے کھڑا ہوں
جوڈٹے ہوئے تھے ہر محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر
حق گو،بااخلاق باکردار، نڈر دلیر،بے باک، دانشورانہ سوچ کا حامل، دلائل کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ، شفیق اور ملنسار کشمیری مائوں بہنوںکی آزادی کا غمخوار ،بھارتی ایوانوں کے خلاف ننگی تلواریہ اس مرد مجاہدکے صفات تھے جس کو ہم لوگ نذیر گاندربلی کے نام سے جانتے تھے۔نذیر احمدبٹ ولد عبدالاحد بٹ ( نذیر گاندربلی ) گاندربل کے مضافات میں سالورہ نامی گائوں میں 1965 میں پیدا ہوئے ہائرسیکنڈری گاندربل ( جو بعد میں ڈگری کالج بن گیا)تعلیم حاصل کی تھی۔ BA اسلامیہ کالج سری نگر سے کیا تھا۔تحریک آزادی کشمیرکی مسلح جدوجہدکے شروعات میں ہی گاندربل کے شاہین نے اپنے آپ کو پیش کیا اپنے دل میں آزادی کی تڑپ لیئے 1990 میں یکم اگست کو لائن آف کنٹرول(LOC )کو اپنے پائوں تلے روندتے ہوئے سر زمین بیس کیمپ وارد ہوئے۔بیس کیمپ پہنچتے ہی اپنے مقصد کیلئے حرب و ضرب کی مشقیں شروع کی اور تنظیم کے ذمہ داروں نے ان کی صلاحیت دیکھ کر ان کو اہم ذمہ داریوں پر مامور فرمایا۔فتر می امور ہر جگہ اپنی صلاحیت بروئے کار لائے۔اسی اثنا میں ریڈیائی آواز صدائے حریت کے زریعے کشمیری عوام بالخصوص مجاہدین تک مواصلات کے ذریعے تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے ایک ادارہ قائم ہوا جس کے بانی ارکان میں نذیر احمد کو شامل کردیا گیا وہاں بھی موصوف نے اپنی صلاحیتوں اورمحنت اور جذبہ آزادی خلوص سے اپنے آپ کو منوالیا۔حالات کے بدلتے ہوئے دوستوں خیرخواہوں نے شادی پر آمادہ کرنا چاہا جزبہ جہاد شوق شہادت آڑے لارہا تھا اسی اثنا میں جموںکشمیر کے مایہ ناز بلند پایہ کے شاعر کشمیر(کاشر اقبال)مرحوم مشتاق کاشمیری صاحب نے مذیر احمد کی شخصیت کو پرکھا اور اپنی لخت جگر ان کے نکاح میں دی یہ کسی اعزاز سے کم نہ تھا اور مرتے وقت تک اس اعزاز کو برقرار رکھا۔مرحوم مشتاق کاشمیری جب بھی یہاں آتے تھے تو ان کا ٹھہرائو نذیر صاحب کے گھر میں ہی ہوتا تھا۔مرحوم مشتاق کاشمیری صاحب کو کئی دفعہ ذمہ داروں نے الگ رہائش کا انتظام کرکے دیا تھا مگر مشتاق کاشمیری نے اپنی سادگی اور نذیر صاحب کی سادی کو ہی ترجیح دی مرحوم مشتاق کاشمیری صاحب کو نذیر صاحب کیساتھ انکی خودداری پر ناز تھا۔ اللہ تعالی مشتاق کاشمیری کو جواررحمت میں اعلی مقام عطا کرے۔سوشل میڈیا کا دور جب سے وجود میں آیا تو موصوف نے سوشل میڈیا بھی تحریک آزادی ہی کیلئے ہمیشہ استعمال میں لایا اور اپنی پوری زندگی تحریک آزادی کیلئے وقف کررکھی تھی۔یہ مرد شہسوار، مرد قلندر بالآخر۱۷ ماہ شعبان ۱۴۴۵ ھ بمطابق۲۹ فروری ۲۰۲۴ء ؁کو ہمیں داغ مفارقت دے کر آخری منزل کی طرف روانہ ہوئے
انا للہ وانا الیہ راجعون o
لیکن جاتے جاتے کچھ اہم پیغامات چھوڈ دئے۔جو ہمارے لئے ایک کسوٹی سے کم نہیں٭ یہ دنیا فانی ہے اور ہر ایک نے یہاں سے کسی بھی وقت رخصت ہونا ہے۔٭ کشمیری نائوں بہنوں کی آزادی کیلئے میری طرح زندگی کے آخری سانس تک ڈٹے رہنا۔٭ قائدین تحریک کیلئے یہ پیغام ہے کہ اپنی معاشی فکر کیساتھ ساتھ تحریک کیساتھ جڑے بے کس و بے بس دیار غیر میں ہجرت کرنے والوںکی معاشی فکر سے غفلت نہ برتے۔
ایک احتجاجی پروگرام میں اپنے ہمسفر ساتھیوں کیساتھ عجب قیامت کا حادثہ ہے
کہ اشک ہے مگر آستین نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے
اُفق پہ مہر مبین نہیں ہے
مگر تیرے مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
اگر چہ سفینہ اکسیر گرداب ہوچکا ہے
اگر چہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھوچکا ہے
اگر چہ قدرت کا شاہکار آخری نیند سوچکا ہے
مگر تیرے مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
تیری جدائی سے مرنے والے وہ کون ہے جو اُداس نہیں ہے

اتر گئے منزلوں کے چہرے امید کیا۔؟کارواں گیاہے
مگر تیرے مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے کئی دماغوں کا اک انساں میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظت اجڑ گئی ہے زباں کا زور بیاں گیا ہے
مگر تیرے مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں
یہ کون اٹھا کہ دھر و کعبہ شکستہ و خستہ گام پہنچے
جھکاکے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے عوام پہنچے
تیری لحد پہ خدا کی رحمت تیری لحد کو سلام پہنچے
مگر تیرے مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے

٭ ٭ ٭