شہزاد منیر احمد
کشمیر کی تاریخ بیرونی حملہ آوروں سے بھری پڑی ملتی ہے۔ کیونکہ جتنی اقوام اور تہذیبوں نے ہندوستان پر یلگار کی وہ کشمیر ہی کے راستوں سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے۔کشمیریوں کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں مورخ تقسیم کرتے ہیں۔ ہندو راجاؤں کا قدیم دور، کشمیری مسلمانوں کا دور، انہیں تاریخ سلاطین کشمیر کا دور بھی کہتے ہیں۔ شاہان مغلیہ کا دور، اور پٹھانوں کا دور جسے درانیوں کا دور بھی پکارا جاتا ہے۔
سن 1846 میں انگریزوں اور ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے درمیان امرتسر معاہدہ ہوا جس کی بنا پر کشمیر کو ایشیا کے سب سے بڑے بدمعاش کو 75 لاکھ نانک شاہی روپوں کے بدلے بیچ دیا گیا۔ ان اختیارات کے تحت راجہ گلاب سنگھ نے کشمیریوں پر بھاری ٹیکس لگائے اور عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔ اس ظالمانہ DEED معاہدہ امرتسر پر برطانوی سنجیدہ حلقوں اور فوجی افسروں نے بھی تنقید کی تھی۔

رابرٹ تھیورپ جو انگریزی فوج کا میجر تھا لکھا کہ یہ اتنی بڑی نا انصافی ہے کہ اس سے جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے۔اور اس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے ہم پیروکار ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کے مشنری ڈاکٹر ایلمسلی نے جو کشمیر میں تھا نے لکھا”- لوگوں کا شرمناک استحصال، ہم انگریزوں کے لیے شرمناک ہے کیونکہ ہم نے اس ملک کو اس کے موجودہ ظالم حکمرانوں کو بیچ ڈالا اور ساتھ ہی ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کو جنہیں ہم نے غلام بنا دیا۔”
1931۔۔13جولائی کو 22کشمیری نوجوانوں نے ڈوگرہ راج کے ظلم کو للکار کر بہادری کی تاریخ رقم کی ۔وقت گزرتا گیا اور 1947 آ گیا۔ انگریزی یہود و نصارٰی اور ہندوؤں نے ہندوستان کی آزادی کے معاہدے کی کلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کو اپنے حق خود ارادیت سے محروم رکھتے ہوئے ریاست کشمیر کا ہندوستان سے جبری الحاق کروا دیا۔ یہود و نصارٰی کی جبلت میں شامل یہ وہ حسد و بغض اور عداوت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعلی نے فرمایا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے..
تقسیم ہندوستان، پاکستان بن جانے اور کشمیر کے حق خودارادیت سے محروم ہونے کے بعد کشمیری عوام کی جنگ آزادی جو صدیوں سے حالت جنگ میں چلے آرہے تھے کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا۔
کشمیری قیادت نے بڑی عقلمندی، جرآت مندی اور جذبہ حریت سے لیس کشمیریوں کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان کار زار میں اتارا اور کئی قابل ستائش و فخر کامیابیاں بھی سمیٹیں۔ مگر پھر مشیت ایزدی کے خلاف کام کرنے والی قوتیں زیادہ متحرک ہو گئی اور جنگ کی رفتار و سمت بدلنے لگی۔ ظاہر ہے کہیں قیادت کا ایجنڈا بدلا تو کہیں جذبوں میں جھول آیا تو کہیں لشکر کا تھکنا وغیرہ۔
معاشرے میں کئی طرح کی شخصیات و افراد پائے جاتے ہیں۔ کئی بڑے بھولے بھالے کبوتروں کی طرح اور کئی کوؤں کی طرح چالاک اور اوترے۔ کچھ بلبلوں کی طرح خوش آواز تو کچھ مور کی طرح خوش رنگ۔ کہیں بلند حوصلے والے عقاب۔ عقاب کی نقالی میں نیلگوں فضاؤں میں اڑنے والا ” راجہ گدھ” بھی بہت بلند پرواز ہوتا ہے مگر وہ عقاب کی طرح زندہ شکار کی لذت نہیں پاتا کیونکہ وہ” مردار” کھانے کے لئے زمین پر اترتا ہے۔ایسا ہی کشمیریوں کے ساتھ ہوا۔ شروع شروع میں انہیں نوجوان کشمیری قیادت، شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس جیسے متحرک قائدین ملے۔ شیخ عبداللہ جب لاہور میں زیر تعلیم تھے تو انہیں حکیم الامت شاعر علامہ محمد اقبال کی رفاقت نصیب تھی۔ وہ ان کی محفلوں میں انہیں کا کلام پڑھتے جنہیں پسند کیا جاتا تھا۔ پھر انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی راہنمائی بھی میسر آئی۔ قائد اعظم نے انہیں ہندوستانی کلچر، آ بادی، ہندوؤں کی فطرتی چالبازیوں سے مکمل آگاہ کیا کہ وہ کیسے ان لوگوں کو ورغلا کر نظریہ پاکستان اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہیے ہیں اور مستقبل میں کیا کر سکتے ہیں۔ لیکن شیخ یہ حقیقت نہ سمجھ سکا اور وہ نہرو کے قریب ہوتا چلا گیا


علامہ اقبال، عالمی منظر نامے کے پیش نظر یہود و نصارٰی اور دیگر سیاستدانوں کے بارے اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔
نسل قومیت کلیساسلطنت تہذیب رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
1925 کے اخباروں میں ہندوستان میں ہندوؤں کے مستقبل کے منصوبوں کا باقاعدہ اعلان چھپا تھا۔ سب سے پہلا منصوبہ ہندوستان میں ہندو راج قائم کرنے کا تھا۔ ہندو راج کے قیام کے بعد ان شرائط پر عمل درآمد کرانا تھا۔
1۔۔قرآن مجید کو الہامی کتاب نہ سمجھا جائے۔
2۔۔حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو آخری پیغمبر نہ سمجھا جائے۔
3۔۔ حج کا خیال دل سے نکال دیا جائے۔
4 ۔۔سعدی اور رومی کی جگہ، کبیر اور تلسی داس کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے۔
5۔۔ اسلامی تہواروں کی جگہ ہندو تہواروں کو منایا جائے۔
6۔۔ اسلامی نام ترک کر کے، ہندی نام رکھے جائیں۔
7۔۔ عربی کی بجائے ہندی میں عبارت کی جائے.
اس طرح کی جامع بریفننگ کے بعد بھی کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ اپنے رفقاء کار کے ساتھ نہرو کے نرغے میں آ گئے۔ شیخ عبداللہ کے ساتھ ہندو بنیاوں کے ہاتھوں وہی کچھ ہوا جو سیاست میں اقتدار کے بھوکوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہوس و لالچ نے اسے نہ گھر کا رکھا نہ گھاٹ کا۔ کشمیر کی وزارت عظمیٰ تو دی، کام نکل گیا تو گرفتار کر کے اسے جیل میں بھی ڈالا۔ عزت نفس بھی چھنی، وزارت بھی گئی اور کشمیریوں سے غداری کی سزا بھی۔ آج بھی اس کا خاندان کشمیریوں سے بددعائیں سنتا ہے۔
جنگ عسکری ہو یا سیاسی ہر دو فریق اسے طوالت دینے کی اسٹریٹجی اپناتے ہیں۔ تا کہ دشمن کو تھکایا جائے۔ بھارت نے یہی طریقہ کشمیر میں اپنا رکھا ہے۔ نہ وہ کشمیر پر مذاکرات سے انکار کرتا ہے نہ مذاکرات کرتا ہے۔۔ نہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتا ہے۔ پرانا اور بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ میں زیادہ اقوام کی۔ہمدردیاں حاصل کر لیتا ہے۔ مظلوم کشمیری مسلسل جبر اور ظالمانہ سرگرمیوں میں پس رہے ہیں۔
یہ کیفیت عالمی منصفوں کے منہ پر طماننچہ ہے۔کشمیری مسلمانوں کی پاکستان سے محبت ابدی اورلازوال ہے۔بھارت پچھلے76 سالوں سے یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کیونکہ بھارت کو یہ معلوم ہے کہ نہ تو وہ پاکستان سے روائتی جنگ میں جیت سکتا ہے اور نہ ہی کشمیریوں کی جد وجہد کے سامنے بند باندھ سکتا ہے۔ وہ اپنا روائتی ہتھیار پروپیگنڈا اور کہہ مکرنیاں استعمال کر رہا ہے۔

کشمیری جنگجووں میں تفرقہ ڈالنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے۔ کشمیری قائدین کے لیے موجودہ حالات میں اپنے جذبے اور جد وجہد کو بڑی ثابت قدمی سے جاری رکھنا ہو گا۔فی الحال پاکستان چونکہ اپنے سیاسی عدم استحکام کے سنبھالنے میں مصروف ہے۔ لیکن وہ اپنے بنیادی عہد اور زمہ داری سے نہ بے خبر ہے اور نہ لا تعلق ہے۔ کشمیریوں کی سیاسی قیادت کو اپنے مسائل وسائل، اندرونی اور بیرونی دوستوں اور دشمنوں کا بہ نظر غائر تجزیہ کر کے، نظر ثانی کر کے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کو ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ دوست نما دشمنوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔کہیں بھی فکر و خیال اور مقاصد آزادی میں جھول نہ آئے۔ تاریخ کا سبق اپنے دل و دماغ میں نقش کر لیا جائے کہ جابر حکومتیں اور ظالم قابضین (جیسا بھارت کشمیر پر قابض ہے) کے سامنے کبھی بھی سرنڈر نہیں کیا کرتے۔ انقلابی قائدین اور غیور لشکر ہی ان کا تختہ الٹا کرتے ہیں۔
5 اگست 2019 کے بعد سے خاص طور پر بھارتی جبر و استبداد میں اضافے کے باوجود مرد و زن اور بچوں سمیت کشمیری اپنا لہو دے رہے ہیں اور۔مودی کی فسطائیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔
کشمیری کی جنگ آزادی میں شامل ہر رکن اور عنصر کو ہندوؤں کے اس منصوبے کو ہرگز ہرگز نہیں بھولنا چاہیے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہیکہ وہ ہندوستان میں اسلام، اسلامی شعار، اسلامی تعلیمات، اسلامی نام اور اسلامی تہواروں کو ختم کر کے اپنے ملک کو کلی طور پر ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔۔۔
اللّٰہ غنی الودود کا فرمان ہے:-
” اور سست نہ پڑو، اور غم نہ کھاؤ،تم ہی غالب رہو گے آگر تم ایمان والے ہو۔”
(سورت البقرہ آئیت نمبر 139 )
شہزاد منیر احمد
