آہ۔۔۔پروفیسر نذیر احمد شال

محمد شہباز

معروف کشمیری آزادی پسند رہنما پروفیسر نذیر احمد شال بھی ہزاروں لاکھوں ہم وطنوں کی طرح آنکھوں میں آزادی کے خواب لیے اپنے مادر وطن سے ہزاروں میل دور جمعہ 29 دسمبر2023ء میں لندن میں انتقال کر گئے ہیں۔بستر مرگ پر وفات سے ایک دن قبل اہل کشمیر کے نام ان کا آخری پیغام کہ’’کشمیری عوام حق خود ارادیت کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہو جائیں‘‘۔ جو معروف خبر رساں ادارہ کشمیر میڈیا سروسKMS کی وساطت سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزپر وائرل ہوچکا ہے،اپنے اندر معنی سے بھر پور،جامع و عریض اور اس بات کی عکاسی ہے کہ وہ مر کر بھی زندہ ہیں۔پروفیسر شال شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں 1946میں پیدا ہوئے،یوںوہ زندگی کی77بہاریں دیکھ چکے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقہ بارہمولہ سے حاصل کرنے کے بعدمقبوضہ جموںو کشمیر کی معروف دانشگاہ کشمیر یونیورسٹی سے شعبہ باٹنی میں ماسٹر ز کیا اور بعدازاں بھارتی ریاست ہماچل پردیش یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں بھی ماسٹرز کیا۔ دو مضامین میں ماسٹر زڈگری کی تکمیل کے بعد انہوں نے ضلع بارہمولہ میں ہی قائم ایک غیر ریاستی ادارہ سینٹ جوزف انسٹیٹیوٹ سے اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغازکیا اور بعدازاں ریاستی سرکاری محکمہ تعلیم میں بطور پروفیسر بھرتی ہوئے۔وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ 1989 میں مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مسلح جدوجہد نے پوری شدت کیساتھ دستک دی۔چونکہ شال صاحب کا سسرالی خاندان جماعت اسلامی کیساتھ وابستہ تھا اور مذکورہ خاندان سے دو فرزند یعنی سگے بھائی غلام محمد میر اور رئیس میر تحریک آزادی کا حصہ بنے۔بعدازاں غلام محمدمیر حزب المجاہدین کے بٹالین کمانڈر مقرر ہوئے اور ایک بڑے معرکے میں دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔اہل کشمیر کی مسلح جدوجہد نے بھارت کو زچ کیا تو اس کا بدلہ غیر مسلح کشمیریوں سے لیا جانے لگا۔بھارتی مظالم اس قدر بڑھ گئے کہ 1991 میں شہید غلام محمد میر کی اہلیہ کو بھی بھارتی درندوں نے شہید کیا تھا۔
جبکہ فروری 1986 میں غلام حسن میر جو کہ ایک سول انجینئر اور اسلامک اسٹڈی سرکل کے بنیادی رکن بھی تھے، کو دو درجن سے زائد سرکاری ملازمین سمیت نوکری سے برطرف کر دیا گیا جن میں پروفیسر عبدالغنی بٹ اور پروفیسر محمد اشرف صراف بھی شامل تھے۔انہیں مقبوضہ جموں وکشمیر کے سابق سفاک گورنر جگموہن جو اصل میں BJPاورRSS کے ساتھ وابستہ تھے کو’’حق رائے شماری کے مطالبے کی پاداش کے الزام میں ریاست کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیکر نوکریوں سے برخاست کیا تھا‘‘۔
بھارتی مظالم کے باعث پروفیسر نذیر احمد شال بھی اپنی پوری فیملی سمیت اپنا مادر وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور پاکستان ان کی پہلی منزل ٹھہری۔ ان کی اہلیہ محترمہ شمیم شال بھی شعبہ تعلیم کیساتھ وابستہ تھیں لہٰذا دونوں میاں بیوی نے تعلیمی سرگرمیاں یہاں بھی جاری رکھیں۔شال صاحب چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔وہ90کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف پروگرام کشمیر میگزین میں بطور مبصر اس کاحصہ بنے رہے۔وقت کیساتھ ساتھ شال صاحب کشمیری کیمونٹی کے بہت قریب ہوگئے۔انہیں دوسروں کو جاننے اور دوسروں کو انہیں جاننے کا موقع میسر آیا۔پھر سماجی اور معاشرتی تعلقات قائم ہوتے گئے۔وہ تحریک حریت جو بعدازاں کل جماعتی حریت کانفرنس میں تبدیل ہوگئی ،اس کا حصہ رہے اور بطور آفس بیریر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ان میں کام کرنے کا جون تھا۔ سسرالی خاندانی پس منظر کی بنیاد پر شال صاحب جماعت اسلامی آزاد کشمیر ،حزب المجاہدین اور حتٰی کہ جماعت اسلامی پاکستان کے بھی بہت قریب ہوگئے۔اسی قربت کا نتیجہ تھا کہ انہیں جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے اپنی رکنیت سے نوازا اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے آزاد کشمیر جماعت کی جانب سے مہاجرین کشمیر کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ بھی لیا۔جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے زیر اہتمام کشمیر پریس انٹر نیشنل KPI کے چیف ایڈیٹر کی جانب سے جماعت کی بنیادی پالیسیوں سے انحراف کا نتیجہ تھا کہ جماعت کا KPI کے چیف ایڈیٹر کیلئے شال صاحب نظر انتخاب ٹھہرے۔KPIمیں شال صاحب کو جناب محی الدین ڈار کا بھر پور تعاون حاصل رہا ،جو انگریزی میں ان کی معاونت کرتے رہے۔KPI سے فارغ کرکے شال صاحب کو نائب امیر جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر جناب مولانا غلام نبی نوشہری صاحب کے دفتر کشمیرہئتیہ الاغاثہ ا لمسلمی الکشمیر لے جایا گیا جہاں ان کی ادارت میں انگریزی روز نامہ کشمیر مرر’’Mirror Kashmir ‘‘میں شائع ہوتا رہا۔محترم نوشہری صاحب کے دفتر میں ہی میرے محسن ثناء اللہ ڈار صاحب کی میت میں شال صاحب کیساتھ مجھے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا گو کہ میری ان کیساتھ کوئی خاص شناسائی نہیں تھی۔

2003 میں وقت نے ایک اور انگڑائی لی اور بیس کیمپ میں کچھ ناگزیر اور سخت وجوہات کی بناء پر شال صاحب کو بطل حریت سید علی گیلانی کا کل جماعتی حریت آزاد کشمیر و پاکستان شاخ کا نمائندہ مقرر کیا گیا۔یہ ان کی ذہانت کا ہی ثبوت تھا کہ انہیں کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا،جس پر وہ 2004 تک فائز رہے۔2004 میں یورپ کے کئی ممالک میںکشمیر سنٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا ،تو شال صاحب کو کشمیر سنٹر برطانیہ کے سربراہ کے بطور برطانیہ بھیجا گیا جہاں پھر وہ زندگی کی آخری سانس تک مقیم رہے۔
یہاں ا س بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جوالائی 2001 میں جب حزب المجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنگ بندی کی تھی،تو جنگ بندی کا اعلان واپس لینے سے قبل جناب سید صلاح الدین احمد نے پاکستان میں تعینات مغربی ممالک کے سفراء کو خطوط بھیجنے کا فیصلہ کیا تھاتاکہ انہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی وعدہ خلافیوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اہل کشمیر کے حق خودارادیت سے متعلق وعدے سے بھارتی انحراف سے آگاہ کرنا تھا۔جب خط ڈرافٹ کرنے کا وقت آیا تو اس کیلئے بھی شال صاحب کا انتخاب کیا گیا۔مغربی سفارتکاروں کو بھیجا جانے والا مذکورہ خط عالمی ذرائع ابلاغ میں خوب شہرت حاصل کرچکا تھا۔بلاشبہ اہل کشمیر ایک کہنہ مشق سفیر،تحریک آزادی کے رہنما اور بہی خواہ سے محروم ہوگئے ہیں۔پروفیسر شال نے اپنی پوری زندگی تحریک آزاد کشمیر کیلئے وقف کررکھی تھی۔ وہ تمام عمر کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کیلئے سیاسی اور سفارتی سطح پر خدمات انجام دیتے رہے۔شال صاحب انسانی حقوق کے علمبردار ،ایک شاعر ، ادیب ، صحافی ، کالم نگار اور ماہر تعلیم تھے اورانہیں انگریزی، اردو اور کشمیری زبانوں پر بھر پور عبور حاصل تھا۔وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔جن میں میں سپیکنگ سائلنس ، ویوپنگ وزڈم اور ٹورمنٹڈ پاسٹ اینڈ بریشڈ پریزنٹ شامل ہیں۔پروفیسر شال آرگنائزیشن آف کشمیر کولیشن کے سربراہ کے علاوہ ایک تھنک ٹینک سائوتھ ایشیا سینٹر فار پیس اینڈ ہیومن رائٹس کے چیئرمین بھی تھے۔وہ مقبوضہ جموںو کشمیر سمیت مختلف مقبوضہ علاقوں میں لوگوں کے انسانی حقوق بھی اجاگر کرتے رہے۔مرحوم کی ایک اور انگریزی تصنیف جو کہ طباعت کے مرحلے سے نہیں گزری اور صرف Compileکرنا باقی تھی ،کی اشاعت کیلئے معروف اور سرکردہ کشمیری صحافی منظور احمد ضیاء کیساتھ رابطہ کیا گیا لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ برادرم منظور احمد شال صاحب کے بار بار اصرار کے باوجود وقت نہیں نکال سکے ،جس کے نتیجے میں وہ کتاب مصنہ شہود پر نہیں آسکی۔البتہ صحافی دوست کے بقول مذکورہ کتاب میں ان کے آبائی علاقہ بارہمولہ میں ان کے ایام زندگی،طلباء یونین میں بھر پور شرکت اور پھر تحریک آزادی کیساتھ وابستگی کے” بارہمولہ سے لندن تک” کے واقعات تفصیلاََدرج ہیں۔ مذکورہ صحافی دوست اب افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ وقت کے ہاتھوں تنگی کے باعث پروفیسر شال صاحب کی خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے اور پھر وہ 29 دسمبر کو داغ مفارقت دیکر اس دنیا سے ہی چلے گئے۔2020 میں جب کورونا وائرس اپنے جوبن پر تھا شال صاحب ایک اور کشمیری رہنما بیرسٹر عبدالمجید ترمبو کے ہمراہ زسرزمین کشمیر کے ایک اور ہونہار فرزند جناب شیخ تجمل الاسلام سے ملنے ان کے دفتر کشمیر میڈیا سروس آئے تھے،چونکہ مجھے بھی اس وقت ان دونوں صاحبان سے ملنے کا موقع میسر آیا ،میںنے شال صاحب کو بہت ہی نحیف اور کمزور پایا اور ان کی بات چیت میں وہ گرج نہیں تھی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔بعدازاں پتہ چلا کہ انہیں گردوں کا عارضہ لاحق ہوچکاتھا۔

تحریک آزادی کشمیر کی علامت سید صلاح الدین احمد نے شال صاحب کی رحلت پر اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ پروفیسر نذیر احمد شال تحریک آزادی کشمیر کے متحرک سفیر تھے اور وہ موت کی آخری سانس تک اپنی بھر پور وابستگی نبھاتے رہے۔ اہل کشمیر ایک سفیر سے محروم ہوگئے البتہ ان کا ادھورا مشن جاری رکھاجائے گا۔وہ بستر مرگ پر بھی تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کیلئے دعا گو تھے۔یقیناان کی رحلت تحریک آزادی کشمیر کے سفارتی محاذ پر ایک بڑا خلا ہے جس سے پُرکرنا شاید ممکن نہیں ہوگا۔البتہ آزادی کے راستے میں جانی و مالی قربانیاں دینے والے ہی تاریخ اور تحریک میں امر ہوجاتے ہیں۔سید صلاح الدین احمدنے مرحوم نذیر احمد شال کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لواحقین بالخصوص ان کی غمزدہ اہلیہ اور بچوں کے ساتھ تعزیت و ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم رہنما کی بلندی درجات کیلئے دعا کی۔سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان حلقہ خواتین کی نائب قیمہ ڈاکٹر سمیہ راحیل قاضی اور پروفیسر صغیر قمر نے شال صاحب کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔جبکہ یکم جنوری 2024 بروز سوموار کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان شاخ کے زیر اہتمام شال صاحب کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا،جس سے کنونیر جناب محمود احمد ساغر نے جہاں شال صاحب کو ان کی تحریکی خدمات پر انہیں سراہا وہیں اپنے مختصر مگر مدلل اور معنی خیز گفتگو میں پوری کشمیری کیمونٹی کے سامنے ایک روڈ میپ رکھا ہے۔انہوں نے آزاد جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعظم جناب سردار عتیق احمد خان کی موجودگی میں یورپ میں کشمیر سنٹرز کو دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ کشمیری عوام کے سفیروں باالخصوص مرحوم شال صاحب کے مشن کو آگے بڑھایا جاسکے،یہی انہیں بہترین خراج عقیدت ہوگا۔

محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔