عروج آزاد
میں فجر کی نماز پڑھا کر اپنے کمرے میں واپس پہنچا ہی تھا کہ فائرنگ اور شور کی آوازیں آئیں۔نیچے پہنچا تو محمد ریاض میرے سامنے محراب کے قریب ہی سجدے کی حالت میں گرئے ہوئے تھے۔ دو عینی شاہدین نے بتایا کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک شخص نے نماز کے بعد ہیلمٹ پہنا اور پھر پستول سے محمد ریاض پر فائرنگ کر دی۔ یہ الفاظ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولاکوٹ کی مسجد القدس کے امام قاری مظفر کے ہیں جو محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری نامی شخص کے قتل مقدمے کے مدعی ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے محمد ریاض، جن کو ابو قاسم کشمیری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو 10 ستمبر جمعہ کے دن نماز فجر کے دوران پولیس کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق محمد ریاض سابق کشمیری عسکریت پسند تھے جن کے والد اور ایک بھائی بھی ماضی میں قتل ہو چکے ہیں۔ کشمیر امور پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کے مطابق وہ بھارت کو مختلف مقدمات میں مطلوب تھے ۔۔
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد ریاض کے ایک رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس تاثر کو رد کیا کہ محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری کا تعلق کس عسکریت پسند تنظیم سے تھا۔ محمد ریاض کے رشتہ دار کے مطابق مقتول کے 9 بچے ہیں ۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت میں سرکاری طور پر حکام اس موقع پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عسکریت پسند گروپ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین احمد نے ایک بیان میں محمد ریاض کے قتل کی مذمت کی ہے۔

محمد ریاض کا قتل ماضی میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جہادی کمانڈروں کی پراسرار شہادتوںکے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو گزشتہ کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ گزشتہ ایک برس میں اس سے قبل پاکستان کے مختلف شہروں میں ایسے ہی پانچ واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں اہم کشمیری جہادی تنظیموں کے موجودہ اور سابق سرکردہ کمانڈر نامعلوم حملہ آوروں کے پراسرار ہدفی حملوں میں نشانہ بنے۔جن میں معروف حزب رہنما کپواڑہ مقبوضہ کشمیر کے بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم بھی شامل ہیں ۔
محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری کون تھے اور کیا ان کا قتل بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے؟؟ اس سوال کے جواب سے قبل یہ جانتے ہیں کہ راولاکوٹ مسجد القدس میں کیا ہوا تھا؟؟مسجد القدس کے امام قاری مظفر نے پولیس کو بتایا ہے کہ محمد ریاض اس شب ان کے پاس مہمان تھے جنھوں نے مسجد ہی کے ایک کمرے میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی۔ قاری مظفر کے مطابق وقوعہ کی صبح انھوں نے فجر کی نماز پڑھائی تو محمد ریاض آخری رکعت میں شامل ہوئے تھے۔۔ ان کے مطابق جماعت ختم ہو جانے کے بعد جب وہ اپنے کمرے میں واپس جانے کیلئے نکلے تو محمد ریاض اپنی بقیہ نماز نوافل ادا کر رہے تھے۔قاری مظفر اپنے کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ فائرنگ اور شور کی آوازیں سن کر واپس آئے تو ان کو عینی شاہدین امیر حمزہ اور شفیق احمد نے بتایا کہ ایک شخص جس نے ٹراؤزر اور شرٹ پہنی ہوئی تھی نے نماز کے بعد ہیلمٹ پہنا اور پستول سے محمد ریاض پر فائرنگ کر دی۔
درج مقدمہ میں کہا گیا کہ فائرنگ کے دوران ایک اور شخص بھی مسجد سے بھاگا تھا۔قاری مظفر کے مطابق وہ ملزم کو نہیں جانتے لیکن عینی شاہدین ملزم کو دیکھ کر پہچان سکتے ہیں۔ راولاکوٹ پولیس نے محمد ریاض کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیتے ہوئے مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا ۔درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ نامعلوم ملزم یا ملزمان نے طے شدہ منصوبے کے تحت محمد ریاض کو قتل کیا۔ پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آرنوٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل ہذا سال رواں میں چھٹا ایسا واقعہ ہے۔ پولیس نے مقتول کی لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے سی ایم ایچ بھجوا دیا جبکہ محمد ریاض کے ایک رشتہ دار کے مطابق محمد ریاض کا قتل ایک بڑی منصوبہ بندی کا حصہ لگتا ہے۔۔
بی بی سی نے محمد ریاض کے ایک قریبی رشتہ دار سے ان الزامات کے بارے میں بات چیت کی تو انھوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 1999 میں محمد ریاض جب صرف 17 برس کے تھے تو انھوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نقل مکانی کر لی تھی۔قریبی رشتہ دار کے دعوی کے مطابق محمد ریاض بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو انتہائی مشکل اور تکلیف دہ حالت میں چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ نوے کی دہائی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جب ان کے علاقے میں 19 لوگوں کو کلہاڑیوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تو محمد ریاض نے اہل علاقہ کے ساتھ مل کر احتجاج کیا جس کے بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا اور کئی ماہ حراست میں رکھا گیا۔

حراست سے نکلنے کے بعد بھی کئی بار ہمارے گھر پر چھاپے پڑے اور حالات اتنے مشکل ہو گے کہ پہلے محمد ریاض اور پھر ان کے سب بہن بھائی ایک ایک کر کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے نکل کر پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر پہنچ گے۔ انھوں نے بتایا کہ محمد ریاض نے آزاد کشمیر میں رہائش اختیار کرنے کے بعد پانچ سال دینی تعلیم حاصل کی اور ان کا کسی تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔۔ وہ ضلع میرپور کے ایک مدرسے صوت الاسلام میں استاد کے فرائض انجام دیتے تھے۔ وہ کئی سال سے خاموشی سے زندگی گزار رہے تھے۔ مدرسے کے ساتھ وہ شہد اور ڈرائی فروٹ کا کاروبار کرتے تھے۔۔ محمد ریاض کے رشتہ دار نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی ان کے خاندان کے لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں محمد ریاض کے والد اور بھائی شامل ہیں۔رشتہ دار کے مطابق محمد ریاض کے والد پہلے ممبئی اور اس کے بعد سعودی عرب میں ملازمت کرتے رہے تاہم 2002ء میں انھیں زمینوں پر کام کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں نے شہید کر دیا۔۔ واضح رہے کہ بھارت میں اس واقعے پر موقف اختیار کیا گیا تھا کہ۔ محمد اعظم سے اسلحہ برآمد ہوا اور جب ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے بھارتی فوجی اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے بعد جوابی کاروائی میں وہ مارے گے۔ قریبی رشتہ دار کے مطابق 2018 میں محمد ریاض کے ایک اور بھائی حافظ محمد اسماعیل جو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں انگریزی کے مضمون میں ماسٹرز کر رہے تھے، کشمیر کے کنٹرول لائن کے علاقے ہجیرہ میں نماز پڑھانے گے ہوئے تھے تب ان کو کنٹرول لائن پار سے ٹارگٹ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔۔کشمیر امور پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کے مطابق محمد ریاض پر بھارت میں مختلف مقدمات قائم ہیں۔ کچھ تو پرانے ہیں تاہم زیادہ مقدمات اس سال میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے مختلف حملوں کے حوالے سے درج ہیں۔ ابھی تک کی ہماری اطلاعات کے مطابق محمد ریاض انڈیا کو مطلوب تھے۔ ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ابو قاسم کشمیری نام کی باز گشت گزشتہ کچھ عرصہ سے انڈیا اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سنی جا رہی تھی۔ انڈیا میں یہ تاثر عام ہے کہ ابو قاسم کشمیری یا محمد ریاض لشکر طیبہ کے کمانڈر ساجد جٹ کے بہت قریب ہیں۔ ماجد نظامی کے مطابق محمد ریاض کا نام انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس سال ہونے والے چار بڑے واقعات میں لیا جاتا رہا ہے جن میں سے ایک ڈانگری کا واقعہ ہے جہاں سات لوگ مارے گئے تھے اور ان سب واقعات کا ماسٹر مائنڈ محمد ریاض یا ابو قاسم کشمیری کو قرار دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ محمد ریاض فنانسر تھے جنہوں نے ان واقعات میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی تھی اور وہ عموماً ایسے واقعات کیلئے سرمایہ فراہم کرتے تھے۔ صحافی فیض اللہ خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محمد ریاض سے پہلے بھی جن لوگوں کا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندی کے حوالے سے نام لیا جا رہا تھا، پرسرار اور مختلف حالات میں قتل ہوئے ہیں۔ فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ اب جو لوگ مارے گئے ہیں ان کا تعلق لشکر طیبہ، جیش محمد، البدر اور حزب المجاہدین سے بتایا جاتا رہا ہے۔ قصہ مختصر کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر پر تو حملے کر ہی رہا ہے اور وہاں اس نے سیاسی رہنماؤں کو قید و بند میں رکھا ہوا ہے تاکہ وہ آزادی کیلئے جدوجہدنہ کر سکیں لیکن افسوس وہ پاکستان کے اندر بھی ایسی عظیم شخصیات کو ٹارگٹ کر رہا ہے جن کے دلوں میں جہاد اور آزادی کی شمع روشن ہے۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ابو قاسم اور امتیاز عالم ؒ سمیت تحریک آزادی کشمیر کے دیگر تمام شہدا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔
٭٭٭