
سال 2021گزر گیا۔2022کا آغاز ہوا۔پوری ریاست جموں و کشمیرحسب معمول بھارتی ظلم و جبر کے سائے میں ہی دن گذارتی رہی اور نہیں معلوم کہ کب تک آلام و آزمائش کا یہ دور چلتا رہے گا۔ کوئی گھر اورکوئی خاندان ایسا نظر نہیں آئیگا جو قابض فورسز کے ظلم وستم سے محفوظ رہا ہو۔ایساجبراورایسا ظلم جسے بیان کرنے میں زبان اور تحریرکرنے سے قلم بھی عاجزہے۔لیکن حیرت اس بات ہے کہ دنیاخاموش ہے ایک تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ ایک سکو ت ہے اور اس سکوت سے فائدہ اٹھاکر بھارتی قابض حکمران ہر ممکنہ فائدہ اٹھاکر،ریاست کے با شندوں پرظلم و جبرکا بازار گرم کرکے رکھے ہوئے ہیں۔نہ صرف ان کی عزت و عصمت پر حملہ آور ہور ہے ہیں بلکہ ان کے اکثریتی کردار کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں بھی کررہے ہیں۔ ہرروز بھارتی افواج کشمیریوں کو قتل کرتی ہے اور جواز یہ دیتی ہے کہ یہ لوگ دھشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو پکڑکرعقوبت خانوں میں لیا جاتا ہے اور وہاں اُن پر بے انتہاتشدد کیاجاتاہے۔جیلیں بھری ہوئی ہیں۔مرد و زن،خورد و کلاں۔۔۔رہنما و کارکن۔۔کوئی امتیاز نہیں۔۔یہ سلسلہ 2020میں بھی جاری تھا اور 2021میں بھی جاری رہا۔ کشمیر میڈ یا سنٹر کے اعداد شمار کے مطابق”بھارتی خفیہ ایجنسی این آئی اے اور بھارتی فوج نے مشترکہ طورمحاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران اس سال2712 عام شہریوں کو گرفتار کرکے ان پر مظاہروں کو منظم کرنے،بھارتی پولیس و فوج پر پتھراؤ کرنے اور شہداء کے جنازوں میں شرکت کرنے اور اس موقعہ پر اسلام او آزادی کے حق میں اور بھارت مخالف نعرے لگانے کے الزامات عائد کرکے انہیں کشمیر اور کشمیر سے باہر کی جیلوں کی زینت بنادیا۔ ان گرفتار شدگان میں بزرگ اور جوان و بچے بھی شامل ہیں۔ بھارتی فوج نے گن پاؤڈر چھڑک کر،ماٹر گولوں کی شلنگ سے اور آگ لگا کر58مکانوں کو تباہ کرکے اربوں روپے کی مالیت کا عوام کو نقصان پہنچایا۔سرچ آپریشنز کے دوران جان بوجھ کر عوام پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 308شہریوں کو شہید کردیا گیاجبکہ فائرنگ اور شلنگ کر کے 148شہری زخمی کئے گئے۔اس سال وادی کے مختلف علاقوں سے 25لاشیں برآمد کرلی گئیں جن میں متعدد لاشیں گولیوں سے چھلنی ہوچکی تھیں“۔ان کے قاتلوں کو نامعلوم بندوق برداروں کے کھاتے میں ڈال کر،اپنی اناکو تسکین پہنچانے کی کوشش کی گئی۔حالانکہ یہ حقیقت چوری چھپی نھیں ہے کہ یہ سرکاری بندوق بردار ہوتے ہیں اور انہیں مکمل حکومتی آشیرواد ہوتی ہے۔
جس اقوا م متحدہ نے جموں و کشمیر کو متنازء قرار دیا ہے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا نہ صرف مطالبہ بلکہ فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کو دونوں ممالکہ نے تسلیم بھی کیا ہے،لیکن اس خوفناک صورتحال کو دیکھ کر وہ بھی خاموش ہے۔ جس ادارے کابنیادی کام ہی مظلوموں کی مددکرنااور اُن کو ظلم کے چنگل سے نجات دلانا تھا،وہ ادارہ محض چند طاقتور ممالک کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح عالم اسلام جو 57 اسلامی ممالک پرمشتمل ہے جن کے پاس سب کچھ ہے لیکن ایمان کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں اور وہی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جو نبی برحق ﷺ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ بے وزن ہونگے اسی طرح جس طرح سمندرکی جھاگ کی ہوتی ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ ادھر بابری مسجد شہید کی جاتی ہے ادھر کویت کی سرزمین میں عالیشان مندر تیار کیا جاتا ہے۔ادھر کشمیر میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے،پاکدامن خواتین کے عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ادھر شاہ اور شہزادے نریندر مودی کے گلے میں ہار ڈال رہے ہیں،اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز رہے ہیں۔اس سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں سے کسی تعاون کی امید رکھنا،احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔مملکت پاکستان جو اس متنازع مسئلے کا ایک فریق ہے اورجس کے قائد نے کہا تھا “کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے”کو اب اپنی معیشت سدھارنے کی فکر ہے۔ان حالات میں اب کیا ہوگا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تمام ظاہری سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو ایک بڑا سہارا اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جسے ہم اللہ کا سہارا کہہ سکتے ہیں۔شرط صرف یہ ہے کہ صرف اور صرف اسی سہارے پر ہی اعتماد کیا جائے اور اسے ہی حتمی سمجھا جائے۔۔پھر بڑی بڑی طاقتیں اس عظیم قوت کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں اور بے بس ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔کشمیر ی عوام اور کشمیری قیادت اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں انہیں صرف اور صرف اللہ تعلی کے سہارے ہی آگے بڑھنا ہوگا اور ان شا ء اللہ نہ صرف ظالم و جابر قوتیں بلکہ تماشائی اور منافق قوتیں بھی ذلیل و خوار ہوکر اپنا زوال اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی۔ ان شا ء اللہ۔۔
٭٭٭