محمد شہباز
اب جبکہ یہ بات واضح اور پوری شدت کے ساتھ مترشح ہوچکی ہے کہ دنیا میںطاقت ہی نظریہ ضرورت بن چکی ہے اور اسلحہ کے زور پر ظالم مظلوم ا ور محکوم کو صفحہ ہستی سے مٹادے یا ملیا میٹ کردے اس سے نہ تو پوچھ گچھ ہوسکتی ہے اور نہ ہی ظالم اور جابر قوتوں کو جوابدہ ٹھرایا یا بنایا جاسکتا ہے۔اگر اس میں اب کوئی شک و شبہ تھا یا دنیا کا کوئی معمولی عقل و شعور رکھے والا انسان بنیادی انسانی اصولوں کی پاسداری کی کوئی مبہم سی امید پر زندہ ہے تو اس سے بیگانگی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔انسان اور انسانیت کا جنازہ مکمل طور پر نکل چکا ہے اور اب بس صرف زندہ لاشوں کی صورت میں یہ تعفن زدہ دنیا باقی ہے۔کسی وقت اس کے خاتمے کا اعلان بھی متوقع ہے۔بطاہر انسان ترقی کی منازل ،نئی نئی ایجادات اور نہ جانے کیا کیا اچھل کود کرتا پھر رہا ہے مگر انسانی معاشروں کی ترویج اور اٹھان انسانیت سے کوسوں دور ہے۔ ارض فلسطین جو کہ انبیاء کی سرزمین بھی ہے اور سب سے بڑھ کر مسجد اقصی جو کہ امت مسلمہ کا قبلہ اول ہے اور محکوموں اور مظلوموں کی داد رسی اور انہیں اپنے سینہ مبارک سے لگانے والے روئے زمین کی لازوال شخصیت اور بے پایاں سراپا و رحمت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مسجد اقصی سے معراج پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میت میںایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے یہیں باجماعت نماز بھی ادا کی ۔آج یہی سرزمین دنیا کی مظلوم ترین سرزمین کہلاتی ہے۔غزہ جو کہ ارض فلسطین کا ایک بڑا حصہ اور تقریبا 32 لاکھ لوگ اس پٹی پر رہائش پذیر تھے آج انسانی لاشوں سے اٹی پڑی ہے۔اب تو اہل غزہ کو دفنانے کیلئے بھی جگہ کم پڑ گئی ہے۔ 21 نومبر کو جب یہ تحریر کشمیر الیوم کیلئے تحریر کی جارہی تھی۔ 13ہزار 300 سو سے زائدفلسطینی ایک ایسی بمباری کا نشانہ بن کر ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئے جس کے سامنے اقوام متحدہ،اس کی سلامتی کونسل اور دنیا کے دوسرے انسانی اور فلاحی ادارے دم توڑ چکے ہیں۔اقوام متحدہ مرچکی ہے بس اس کا کفن دفن باقی رہ گیا ہے۔عرب لیگ اور OIC محض تماش بین ہیں اور یہ دونوں تنظیمیں اپنی حیثیت و افادیت کھوچکی ہیں۔
رواں برس 07 اکتوبر تاریخ میں امر ہوچکا ہے جب مظلوم پہلی بار ظالم پر غالب آگئے۔جس کی گواہی اللہ تعالی کا قرآن آج سے سولہ سو برس قبل دے چکا ہے کہ ; بار ہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے؛ سورہ بقرہ آیت 249 ؛


07اکتوبر کی کاروائی کوئی الل ٹپ نہیں تھی اس کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کار فرما تھی کیونکہ اہل فلسطین کا گھٹن کے ماحول میںدم گھٹ چکا تھا۔گزشتہ 20 برسوں سے اہل غزہ ایک ایسے محاصرے میں زندگی بسر کررہے تھے جس میں ان کیلئے ایک پل کی بھی خوشی میسرنہیں تھی۔ ان کیلئے زندگی بے معنی اور بے مقصد ہوچکی تھی کیونکہ انہیں قدم قدم پر تشدد و تذلیل اور توقیرکا نشانہ بنایا جانا معمول بن چکا تھا۔معصوم فلسطینی بچیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا انہیں بھی انسان نما بھیڑیئے اور درندے پکڑ کر جیلوں میں بند کرتے اور آج بھی ہزاروں فلسطینی مردو خواتین اور معصوم بچے بچیاں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے ہیں جس کا موجودہ دنیاوی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اہل فلسطین کو مسجد اقصی میں خصوصیت کے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے سے روکنا کوئی غیر معمولی جرم تصور نہیں کیا جاتا،حتی کہ انہیں دوران نماز تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتامگر اس ساری بدبختی اور جہالت پر نہ کسی بائیڈن کی رگ حمیت پھڑکتی اور نہ ہی انسانی حقوق کے علمبرداروں کا خون جوش مارتاہے۔واللہ مجھے اسرائیل کا نام لکھنے اور لینے میں بھی شرم محسوس ہوتی ہے جو اس روئے زمین پر ایک ناسور کے سوا کچھ نہیں ہے اوراس ناسور کا خاتمہ اب زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔غزہ کی گلیاں اور چوک چوراہے چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ یہاں معصوم پھولوں کی نہیں بلکہ بائیڈن ،ایمونیل میکرون،جسٹن ٹروڈن،جرمن چانسنلراولف شولز اور ان کے حواریوں کی لاشیں پڑی ہیں جن سے ہرسو بدبو پھیل چکی ہے۔البتہ اب بھی انصاف پسندوں کی کمی نہیں ہے جو نہ صرف وقتی طور پر صہیونیت سے اپنا ناطہ توڑ چکے ہیں بلکہ اہل غزہ کیلئے یہ امید افزا پیغام دے گئے ہیں کہ بھلے ہی آپ کے اپنے ہم مذہب بحیثیت مجموعی آپ کو بھول گئے ہوں لیکن ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ اسرائیلی بربریت کے خلاف 09 ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتکار واپس بلاچکے ہیں۔ ان میں کولمبیا، بحرین، اردن، چلی،چاڈ، ترکی بولیویا،ہنڈرس اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان ممالک نے غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے۔بولیویا پہلا ملک تھا جس نے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی سلوک پر سفارتی تعلقات منقطع کیے تھے۔ نائب وزیر خارجہ فریڈی ممانی نے کہا کہ ان کے ملک نے یہ فیصلہ اسرائیل کے فوجی اقدامات کی تردید اور مذمت میں کیاہے۔ ہنڈرس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ پٹی میں فلسطینی شہری آبادی کو درپیش سنگین انسانی صورتحال کے پیش نظر صدر زیومارا کاسترو ڈی زیلایا کی حکومت نے اسرائیل میں جمہوریہ ہنڈرس کے سفیر رابرٹو مارٹینز کو فوری طور پرٹیگوسیگالپا بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔کولمبیا کے صدر گسٹاو پیٹرو نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھامیں نے اسرائیل میں اپنے سفیر مارگریٹا منجریز کو مشاورت کیلئے واپس بلالیاہے۔ اگر اسرائیل فلسطینی عوام کا قتل عام نہیں روکتا تو ہم وہاں نہیں رہ سکتے۔چلی نے اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی انسانی قانون کی ناقابل قبول خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج میں اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔

آئرلینڈ کی اپوزیشن رہنما میری لو مکڈونلڈ نے اپنی حکومت سے اسرائیل کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔میری لو مکڈونلڈ نے پارٹی کی سالانہ تقریب میں آئر لینڈ میں تعینات فلسطینی سفیر کا خیر مقدم کیا اور فلسطین میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے، ہر 10 منٹ میں ایک بچہ مارا جا رہا ہے۔انہوں نے آئرش حکومت سے اسرائیل کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے کٹہرے میں لانے اور اسرائیلی سفیر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ کر دیا۔میری لو مکڈونلڈ نے سوال کیا کہ غزہ میں مارے جانے والے ہر بچے اور مردہ بچے کی سرد لاش اٹھانے کیلئے بین الاقوامی قانون کا تحفظ کہاں ہے؟ اسرائیل کو استثنیٰ کے ساتھ مظالم کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔جبکہ ناروے نے اپنی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کرکے آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔البتہ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ عرب ممالک کہاں کھڑے ہیں جو اہل فلسطین اور سرزمین فلسطین کے وارث کہلاتے ہیں کیا اہل فلسطین کی نسل کشی اور نسلی تطہیران کی رضا مندی سے ہورہی ہے؟ یہ بہت بڑ اسوال ہے جو امت مسلمہ سے وابستہ ہر شخص کی زبان پر ہے۔
ارض فلسطین کے ساتھ ساتھ ارض کشمیر بھی لہولہان ہے ،یہاں ہرروز معصوم کشمیری نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت ارض فلسطین میں صہیونی اسرائیلی پالیسی پر گامزن ہے۔بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے کشمیری عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ ظالمانہ قوانین کی آڑ میں بھارتی فوجی روزانہ کی بنیاد پر معصوم کشمیریوں کو بے دردی سے قتل، گرفتار اور تشدد و تذلیل کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اپنی منصوبہ بند نسل کشی پالیسی کے تحت سفاک اور دہشت گرد بھارتی فوجیوں نے17 نومبر کو سمنو دمحال ہانجی پورہ کولگام اور بہروٹے بدھل راجوری اضلاع میں 6 کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے لیکر اب تک سفاک بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں 826 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔جس کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 34 برسوں میں 96,274 کشمیری بھارتی گولیوں کا نشانہ بنے۔ مودی حکومت منظم طریقے سے کشمیری نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کے ذریعے نشانہ بنانے کے منصوبے پر گامزن ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہندتوا RSSسے متاثرہ اور BJP سے وابستہ آر آر سوین RR Swain کی مقبوضہ جموں وکشمیر میں پولیس سربراہ کی تعیناتی ہے جس کے بعد کشمیری عوام کے خلاف ظالمانہ کریک ڈاون میں شدت آئی ہے۔ ہندوتوا سے متاثرہ RR Swain نے مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس کی باگ ڈور کیاسنبھالی ہے کشمیری عوام کے گھروں پر چھاپوں کے دوران بڑے پیمانے پر گرفتاریاں روز کا معاملہ بن گئی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم منصوبے کے تحت کشمیری عوام کا بے دریغ قتل عام کیا جا رہا ہے،انہیں ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اقدامات کے بعد بھارت نے ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے عمل میںتیزی لائی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں روزانہ قتل، من مانی گرفتاریاں اور جائیداد و املاک ضبط کرنے کا مقصد آزادی پسند کشمیری عوام کو دہشت زدہ اور تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرانا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مودی کے اقدامات کو نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگی جرم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کشمیری عوام کے بے رحمانہ قتل عام پر دنیا کب تک مجرمانہ خاموشی اختیار کرے گی؟ اقوام متحدہ کشمیری عوام کو بھارتی جارحیت سے بچانے کیلئے کب عملی اقدامات کرے گی؟


اب تو اہل کشمیر کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے گئے ہیں۔ بے رحم بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ رہنے والے کشمیری عوام کیلئے زندگی ایک ڈراونا خواب بن چکی ہے۔استثنیٰ کے قوانین کی آڑ میں بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں فوجی طرز حکمرانی کو پوری شدت کے ساتھ مسلط کیا ہے۔بھارت اپنی خوفناک اور بدنام زمانہ ایجنسیوں NIA، ED، SIA اور SIU کو کشمیری عوام کو دبانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔کشمیری عوام کی جان و مال، عزت و آبرو اور بنیادی آزادی سفاک بھارتی فوجیوں کے رحم و کرم پر ہے۔بھارت نے کشمیری عوام کا جینے کے حق سمیت ہر حق چھین لیا ہے۔مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیرمیں تمام اختلافی آوازوں کو طاقت کے بل پر دبا رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں عام لوگوں، صحافیوں،سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف کریک ڈاون ایک نیا معمول بن چکا ہے۔فسطائی مودی
حکومت کے جابرانہ ہتھکنڈے اہل کشمیرکے جذبہ مزاحمت ختم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔بھارت کے وحشیانہ فوجی قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار کشمیری عوام کا جذبہ آزادی غیر متزلزل ہے اور وہ بھارت کے فوجی جبر کے سامنے کسی صورت سر نگوں ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی صرف بھارت کو حوصلہ دے رہی ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں منظم طریقے سے اپنے جبر کو نہ صرف جاری رکھے بلکہ اس سلسلے میں بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی بھی کوئی پرواہ نہ کرے۔
05 اگست 2019 میںآرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموںو کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں خطرناک حدوں کو چھو رہی ہیں۔ مقبوضہ جموںو کشمیرمیں ماورائے عدالت قتل، من مانی گرفتاریاں ،تذلیل و تشدد،جائیداد و املاک کی ضبطی اور رہائشی مکانوں کو مسمار کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔فسطائی مودی حکومت کے جابرانہ ہتھکنڈے اہل کشمیرکے جذبہ مزاحمت ختم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔بھارت کے وحشیانہ فوجی قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار کشمیری عوام کا جذبہ آزادی غیر متزلزل ہے اور وہ بھارت کے فوجی جبر کے سامنے کسی صورت سر نگوں ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔سفاک مودی اور اس کے حواریوں کو کشمیری عوام کے ہر حق کو پامال کرنے کی سخت سزا ملنی چاہیے۔البتہ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی صرف بھارت کو حوصلہ دے رہی ہے کہ وہ مقبوضہ جموںو کشمیرمیں منظم طریقے سے اپنے جبر کو نہ صرف جاری رکھے بلکہ اس سلسلے میں بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی بھی کوئی پرواہ نہ کرے۔
٭٭٭
محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔