اسرائیلی دانشوروں کایہودی قیادت پر عدم اعتماد

Sajid Khaqwani

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

اسرائیلی دانشوروں کے مطابق اسرائیلی حکومت اپنے جابرانہ اورفسطائی طرزحکمرانی کی وجہ سے چونکہ عوامی اعتمادکھوچکی ہے

اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم کو اجلاس عام میں خطاب کی دعوت دینا اسرائیلی ریاست میں غیرجمہوری رویوں کی حمایت کرناہوگا

ریاست اسرائیل کے آخری دن قریب آنے لگے ہیں اسی لیے بنی اسرائیل آپس میں اسی طرح دست و گریبان رہیں گے

ٹائمزآف اسرائیل 9ستمبر2023ء کی اشاعت کے مطابق ساڑھے تین ہزارسے زائداسرائیلی ماہرین تعلیم، دانشور،ادیب،شاعر،اداکار،فنکار،سابقہ سفارت کار اور دیگراہم عوامی رہنماؤں نے 08ستمبر بروزجمعۃ المبارک کوامریکی صدر جناب جوبائیڈن اوراقوام متحدہ کے معتمدعام جناب انٹونیو گوٹیرش کویادداشت پیش کی ہے۔اسرائیلی مملکت کے ان اہم ترین لوگوں نے امریکی صدر اور اقوام متحدہ کے معتمدعام سے گزارش کی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہوکو ملاقات کیلئے وقت نہ دیں۔دی یروشلم پوسٹ کے مطابق اس یادداشت میں یہ مطالبہ بھی کیاگیاہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے سے اسرائیلی وزیراعظم کوخطاب سے روک دیاجائے اورانہیں خطاب کاموقع یااجازت نہ دی جائے۔یہودی دانشوروں کااپنی سیاسی قیادت کے خلاف اس قدر اظہارنفرت اوراس مطالبے کاپس منظریہ ہے کہ ستمبر2023ء کے آخر میں نیویارک،مرکزاقوام متحدہ میں عالمی سربراہ اجلاس منعقد ہوچکاہے،جس میں پوری دنیاکے حکمرانوں سمیت اسرائیلی حکومتی سربراہ بھی شامل اجتماع ہوں گے اوریقینی طورپر ان کی امریکی صدراور اقوام متحدہ کے معتمدعام سے ملاقاتیں بھی طے کی جائیں گی۔اسرائیلی دانشوروں نے عالمی قیادت سے یہ مطالبہ اس لیے کیاہے کہ ان کے مطابق اسرائیلی حکومت اپنے جابرانہ اورفسطائی طرزحکمرانی کی وجہ سے چونکہ عوامی اعتمادکھوچکی ہے اس لیے بین الاقوامی قیادت بھی اسے ملاقات سے محروم رکھ کر اسرائیلی عوام کی نفرین کاساتھ دیں۔ان ہزاروں اسرائیلی دانشوروں نے خطوط پر متفقہ دستخط کرکے امریکی انتظامیہ کے حوالے بھی کیاہے،جس میں انہوں نے بالاتفاق تحریرکیاہے کہ ”جمہوری جدوجہدکے دل کی طرف سے؛وزیراعظم یتن ناہوجو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کواپنی نام نہادعدالتی اصلاحات کے بارے میں فوائدوثمرات فراہم کررہے ہیں”،ان دانشوروں نے خط میں لکھاکہ اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم کو اجلاس عام میں خطاب کی دعوت دینا اسرائیلی ریاست میں غیرجمہوری رویوں کی حمایت کرناہوگی کیونکہ موجودہ حکمرانوں کی طرف سے جمہوری اداروں کو پامال کیاجارہاہے اور اپنی من مرضی قوم پر مسلط کی جارہی ہے۔دانشوروں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھاہے کہ دنیاکے سب سے بڑے ادارے کے ہاں تقریرکرنے سے وزیراعظم یتن یاہوکو اپنی بین الاقوامی بگڑی ہوئی ساکھ دوبارہ بنانے میں مددمل سکتی ہے حالانکہ اسرائیلی ریاست میں وہ اپناعتمادبری طرح سے تباہ کرچکے ہیں۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے خط میں تحریرتھاکہ اسرائیلی وزیراعظم نے جمہوری اداروں کوتباہی کے دہانے پرلاکھڑاکیاہے اور225ایسی قانون سازیاں کی ہیں جو کہ جمہوری روایات کے بلکل برعکس ہیں،خط میں اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف ریاست کے دفاع کوکمزورکرنے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اوریہودی تاریخی روایات کے خلاف چلنے پربھی انہیں موردالزام ٹھرایاگیاہے۔اس خط کے دستخطیوں میں عالمی شہرت یافتہ متعددکتب کے مولف جناب ڈیوڈگراس مین،جناب ہاگائی لیون جو ”سفیدکوٹ نامی اطباء(ڈاکٹرز)کی تنظیم کے سربراہ ہیں اورجناب آڈڈگولڈرچ جوماہرحساب دان کی حیثیت سے بین الاقوامی پہچان رکھتے ہیں اور2022ء میں اسرائیلی قومی تمغہ بھی سرکارسے حاصل کرچکے ہیں اوراس طرح کے اعلی ترین دیگردماغ بھی شامل ہیں۔

اس سے قبل امریکی حکومتی اہل کارنے ٹائمزآف اسرائیل کے نمائندے کو بتایاکہ اسرائیلی وزیراعظم سے امریکی صدر بیت الابیض(وائٹ ہاؤس)کی بجائے اقوام متحدہ کے دفاترمیں ہی ملاقات کریں گے۔اس سے امریکی اوراسرائیلی حکومتوں کے درمیان دوریاں ظاہرہوتی ہیں کیونکہ موجودہ وزیراعظم کی امریکی صدرسے ملاقات کو آٹھ ماہ سے زائدعرصہ گزرچکاہے اور یہ وقفہ امریکہ واسرائیلی ریاستوں کی قیادت کے درمیان طویل ترین خیال کیاجارہاہے۔تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان یہ عدم اعتماد کی فضا دسمبر2022ء سے موجودہے جس کی وجوہات میں اسرائیلی انتظامیہ کی بدنام زمانہ عدالتی اصلاحات اور فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں بھی شامل ہیں اسرائیلی حکومت کے خلاف صرف اندرون ملک ہی بے پناہ نفرت نہیں بلکہ بیرون ملک بھی کوئی حکومت ابھی تک اسرائیلی قیادت سے ملنے کی روادار نہیں ہے کہ جس نے ملاقات کیلئے وقت کاتقاضاکیاہو۔

ان حقائق سے اندازہ ہوتاہے کہ صرف ساری دنیاہی نہیں بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنی عوام بھی کس حدتک ان سے نالاں ہیں۔اتنے سارے دانشوروں اوراعلی تعلیم یافتہ لوگوں کاجو دنیاکے ہاں اپناایک خاص مقام رکھتے ہوں وہ اپنی یہودی قیادت سے اس قدرمایوس ہوچکے ہیں کہ اب بیرون ملک بھی وہ اس کوشش میں ہیں کہ اسرائیلی حکمرانوں کو نیچادکھائیں۔یہودیوں کاآپس میں لڑناکوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ مکافات عمل ہے۔یہ تاریخی طورپرایک ناشکری قوم ہے اورانہوں نے ہمیشہ محسن کش رویہ اختیارکیے رکھا۔یہی قوم تھی جس نے اپنی آنکھوں سے فرعون کوغرق ہوتے دیکھااور پھربھی حضرت موسی علیہ السلام کی غیرموجودگی میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بے پناہ انتباہ کے باوجودبچھڑے کی پوجاشروع کردی۔یہی قوم تھی جس نے جمعۃ المبارک کا مقدس و محترم دن لینے کی بجائے فرعونیوں کامقدس دن یوم سبت لینے پراسرارکیاکیونکہ ذہنی غلامی ان کے رگ و پے میں رچ بس چکی تھی۔ اورپھر ہفتے کے دن میں بھی حیلوں بہانوں سے جائزکوناجائزاور حرام کوحلال کرنے کی ناپاک کوششیں کیں۔اس قوم یہود کی بداعمالیاں اور چیرہ دستیاں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے کتنے ہی انیباء علیھم السلام کوقتل کیااوریہاں تک کہ محسن انسانیتﷺکے قتل کی سازش سے بھی بازنہ آئے۔اللہ تعالی نے ان پربہت انعامات واکرام کیے لیکن یہ قوم بدترین ثابت ہوئی اوراللہ تعالی نے انہیں عالمی قیادت کے منصب سے معزول کردیااورقیامت تک کی امامت اقوام عالم امت مسلمہ کوعطاکردی۔ قرآن مجیدنے ان کے انجام پربہت پہلے سورۃ بقرہ میں تبصرہ کردیاتھاکہ (ترجمہ61) اور ان پر ذلت اور محتاجی ڈال دی گئی اور انہوں نے غضب الہیٰ کمایا، یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ اس لیے کہ نافرمان تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔”۔چونکہ ریاست اسرائیل کے آخری دن قریب آنے لگے ہیں اسی لیے بنی اسرائیل آپس میں اسی طرح دست و گریبان رہیں گے،ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرتے رہیں گے ،دنیاکے سامنے ایک دوسرے کوبرہنہ کرتے رہیں گے اور ان کے پشتیبان بہت جلدان سے تنگ آکرانہیں تن تنہاچھوڑ دیںگے اوران کاعدم اتفاق ان کے انجام بدکاباعث بن جائے گااور فلسطینی مسلمان خدائی کوڑابن کران یہودپر برسیں گے انہیں نیست و نابودکردیں گے اوربہت جلدامت مسلمہ سرزمین قبلہ اول کی وارث بنے گی،ان شااللہ تعالی۔

٭٭٭

ڈاکٹر ساجد خاکوانی معروف صحافی،دانشور اور استاد ہیں، کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں۔