اسرائیل – مزاحمت، جنگ اور مشرقِ وسطیٰ

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اشرف حماد

جنگ انسانیت کے قدیم ترین اعمال میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ جتنی قدیم ہے، اس کے اثرات اتنے ہی گہرے اور المناک ہیں۔ جنگ کو اکثر امن کی ضد کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ہمیشہ انسانی جانوں، وسائل اور معاشرتی ڈھانچے کو برباد کر دیتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار جنگ امن کی راہداری بھی بن سکتی ہے، جیسا کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں دیکھنے کو ملا ہے۔

:جنگوںکاغیریقینی انجام

تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں صرف جیتنے کے لیے نہیں لڑی جاتیں ہیں بلکہ اکثر ان کا انجام ہار پر بھی ہو سکتا ہے۔ بڑے بڑے جغادری جنگجو جرنیل، جو کبھی ناقابل شکست سمجھے جاتے تھے، شکست یا موت کی صورت میں انجام کو پہنچے ہیں۔ یہی حقیقت جنگ کے بے رحم پہلو کو اجاگر کرتی ہے کہ یہ نہ تو مستقل کامیابی کا ذریعہ ہے اور نہ ہی حقیقی امن کا ضامن۔

:اسرائیل بحیثیت ِ سُپرپاور

اسرائیل کو دنیا کی ایک “منی سپر پاور” سمجھا جاتا ہے۔ بغیر کسی رسمی اعلان کے، اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے، اور اس کی عسکری برتری نے اسے مشرقِ وسطیٰ میں ایک غالب مقام عطا کیا ہے۔
عرب دنیا، جو تعداد، وسائل اور جغرافیائی پھیلاؤ کے لحاظ سے مضبوط ہے، اسرائیل کے سامنے کئی بار شکست کھا چکی ہے۔ جمال عبد الناصر، حافظ الاسد، اور شاہ حسین جیسے عرب حکمران اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ، نہر سویز اور گولان ہائٹس جیسے اہم علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ تاہم، جنگ رمضان میں مصر کے صدر انور سادات نے نہر سویز کو دوبارہ فتح کر کے ثابت کیا کہ جنگ میں فتح اور شکست کا پیمانہ ہمیشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔

:اسرائیل کےخلاف مسلم دنیاکی بےبسی

آج بھی مشرقِ وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک اسرائیل کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں؛ اور دیکھا جائے تو ان کی اسرائیل کے سامنے چیخیں نکل جاتی ہیں۔ ان میں سعودی عرب، مصر، ترکیہ، شام، اردن، قطر، عراق، الجیریا، تیونس، پاکستان (جو خود مضبوط ایٹمی طاقت ہے) انڈونیشیا، افغانستان، ملیشیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کے پاس مضبوط افواج، جدید فضائی اور بحری طاقت موجود ہیں، لیکن عملی طور پر وہ اسرائیل کے سامنے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ صورتحال اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ تعداد اور وسائل کے باوجود اتحاد اور حکمت عملی کی کمی ان کی کمزوری بن گئی ہے۔

:فلسطینی مزاحمت:حماس کی جرأت مندی

ایسے حالات میں فلسطینی مزاحمت، خصوصاً حماس کی جدوجہد، ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی، جہاں نہ باقاعدہ فوج ہے، نہ فضائیہ، اور نہ ہی کوئی نیوی، اسرائیل جیسی طاقتور ریاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہی۔ حماس نے تین برسوں یعنی 7 اکتوبر 2023 سے 17 جنوری 2025، یعنی 467 دنوں تک اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کی۔یہ مزاحمت عام اور روایتی ہتھیاروں کے ساتھ تھی۔ ان کے پاس نہ تو سپر سونک میزائل تھے، نہ بیلسٹک میزائل، اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی۔ اس کے باوجود حماس نے ثابت کیا کہ عزم اور حوصلے کے سامنے بڑی بڑی طاقتیں بھی بے بس ہو سکتی ہیں۔ غزہ، جس پر دنیا کی واحد سپر پاور اور نیٹو کا آشیرباد رکھنے والا اسرائیل قابض ہونے میں ناکام رہا، انسانی تاریخ کی ایک منفرد مثال پیش کرتا ہے۔ اور تو اور

:غزہ نے مقابلہ کیا

1۔۔دنیا بھر سے آئے کرائے کے فوجیوں کا
2۔۔بھاری ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کا
3۔۔یو اے ای، سعودی عرب، اور اردن سے زمینی راہداری کا
4۔۔مصر کی طرف سے شدید محاصرے کا

5۔۔ممکنہ امریکی اسپیشل فورسز کا، جیسا کہ کچھ سنائپنگ ویڈیوز میں دیکھا گیا

6۔۔یورپ کی ظاہر اور خفیہ فوجی امداد کا

7۔۔برطانیہ، یورپی یونین، اور امریکہ کے جاسوس ڈرونز اور طیاروں کا

8۔۔مغربی اور عرب حکومتوں کی اسرائیل کی مکمل حمایت کرنے والی مرکزی میڈیا کا

9۔۔سعودی علماء کا غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف عوام کو اکسانے کا

10۔۔فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کی غزہ کے خلاف پروپیگنڈے کا

ان تمام کے باوجود، طاقتور صیہونی اسرائیل غزہ میں قیدیوں کو آزاد نہیں کرا سکا، سوائے حماس کے مطالبات ماننے کے۔ بقول مرشد اقبالؒ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

:اختتامیہ

جنگ اور امن کی اس کہانی میں یہ واضح ہے کہ طاقتور ہونا کافی نہیں؛ اتحاد، حکمت عملی، اور جذبہ بھی فتح کی کنجی ہیں۔ حماس کی جدوجہد دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت ایک اصولی جنگ ہے، جس میں فتح ہمیشہ میدان جنگ کی فتح نہیں، بلکہ اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے کی طاقت ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے پیچیدہ حالات اور عالمی سیاست کے بدلتے رنگوں میں یہ بات اہم ہے کہ امن کے قیام کے لیے حقیقی انصاف اور مساوات کی ضرورت ہے، جو صرف جنگ کے خاتمے سے ممکن ہو سکتی ہے۔یہ وقت ہے کہ دنیا جنگ کے بجائے امن اور انصاف کو ترجیح دے، کیونکہ اصل فتح ہمیشہ امن میں ہوتی ہے، نہ کہ میدانِ جنگ میں۔