اسرائیل کی غزہ پر پھر بمباری

قاسم جمال

اسرائیلی طیاروں نے ماہ رمضان المبارک میں جب غزہ کے مسلمان سحری کی تیاری کر رہے تھے غزہ کے مختلف علاقوں خان یونس، غزہ سٹی، دیر البلح، نصیرات، جبالیہ ودیگر علاقوں میں شدید بمباری کی جس سے عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی جس سے چار سو سے زائد فلسطینی شہید اور560 سے زائد زخمی ہوگئے۔ شہداء میں حماس کےپانچ اہم رہنما سمیت غزہ وزارت داخلہ کے سیکرٹری محمود ابو دطفہ، داخلہ سیکورٹی کے ادارے کے ڈائریکٹرجنرل میجر بہجت حسن ابوسلطان، حماس کے سیاسی دفتر کے رکن ابو عبیدہ الجماصی، حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عصام الدلیس اور وزارت انصاف کے سیکرٹری احمد عمر شامل ہیں۔ اسرائیل گزشتہ چار پانچ سال سے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں فلسطینیوں پر اسی طرح بمباری کرتا رہا ہے اور ہزاروں فلسطینی اسرائیل جارحیت کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں۔ اس دفعہ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے یرغمالیو ںکی رہائی سے بار بار انکار اور دی گئی تمام تجاویز مسترد کرنے کے بعد اسرائیلی فوج کو غزہ میں حماس کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایت جاری کی گئی تھی اس سلسلے میں امریکا سے بھی مشاورت کی گئی تھی۔

حماس کے ترجمان خالد قدومی نے واضح کیا کہ اسرائیل اگر امن کے بجائے جنگ چاہتا ہے تو ہم ایک بار پھرجنگ کے لیے تیار ہیں اسرائیل دوبارہ جنگ شروع کرتے ہوئے ہمیشہ 7 اکتوبر کو یاد رکھے۔ اسرائیل سفارتی تنہائی کا شکار ہوگیا ہے۔ ہم نے اسرائیل کو شدید ضرب لگائی ہے جو دشمن کے لیے ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گی۔ بے شک اہل غزہ نے بے مثال زندگی اور پرعزم ہونے کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ کے لیے حماس کو نظر انداز کر کے غزہ سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ اہل غزہ نے اپنی جرأت بہادری سے اسرائیل اور امریکا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اہل غزہ نے امریکا اور اسرائیل کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ معاہدے کا احترام ہی یرغمالیوں کی واپسی کا واحد راستہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل فلسطین پر قبضہ ختم اور نقصانات کی تلافی کرے۔ غزہ صرف فلسطینیوں کا ہے اسرائیلی جارحیت اسی طرح جاری رہے تو اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ جنگ بندی معاہدے کا احترام دونوں فریقوں کی ذمے داری ہے۔ اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی ایک بار پھر دنیا کو عالمی جنگ کی جانب دکھیلنے کی سازش ہے۔ غزہ صرف فلسطینیوں کا ہے یہ ان کی آبائی سرزمین ہے۔ فلسطینیوں کو غزہ سے جبری بیدخل کر کے کسی دوسرے ممالک میں بسانے کے منصوبہ ناقابل قبول ہے۔

ادھر یمن میں حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ اگر اسرائیل نے غزہ پر حملے بند نہیں کیے تو اسرائیل پر حملے کے لیے ہم تیار ہیں اور انہوں نے اسرائیل کو سنگین نتائج سے خبردار کیا۔ اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل سے فوری طور پر غزہ میں حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی حملوں پر امریکا، فرانس، یورپ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں چار سو فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ بغیر کسی وجہ سے معاہدہ توڑا گیا اور اسرائیلی جارحیت نے مشرق وسطیٰ کا امن تباہ کردیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کا حکم مذاق سے کم نہیں ہے۔ اسرائیل امن کے بجائے جنگ کا راستہ اختیار کررہا ہے جو کہ پوری دنیا کے لیے انتہائی خطرناک
ثابت ہوگی۔

اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے ثالثوں کی تمام پیشکش مسترد کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کو چھپانے کے لیے دنیا کو آگ میں جھونکنا چاہتا ہے اور امریکا کی جانب سے اس کی پشت پناہی نے اسے بد مست ہاتھی بنا دیا ہے۔ اقوام عالم اور او آئی سی کو اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی کے خلاف سخت لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اور اسرائیل کو لگام دینا ہوگی ورنہ گریٹر اسرائیل منصوبہ کا اگلا قدم مکہ اور مدینے کی جانب ہوگا۔