ابوالاعلیٰ رومی
حضرت ابراہیم علیہ السّلام واحد ایسے پیغمبر ہیں جنہیں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگ یعنی مسلمان، عیسائی اور یہودی اپنا پیغمبر، پیشوا اور ابو الانبیاء مانتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہی ہیں جن سے یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کی نسلیں چل پڑیں۔ اسی لیے اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ابراہیمی مذاہب کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ ایک ہی پیغمبر کی اولاد ہونے کے باوجود ہمیشہ ان ہی تین قوموں کے درمیان گھمسان کی جنگیں اور لڑائیاں ماضی میں ہوتی رہی ہیں، ابھی بھی ہو رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔ کیوں کہ تینوں تہذیبوں میں سے کوئی ایک ہی تہذیب دنیا پر امامت کر سکتی ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں کی گئی پیشگوئیوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ امامت عالم اسلام کو ہی کرنی ہے اور ایسا ہوئے بغیر قیامت ہرگز قائم نہیں ہوگی، یہ مسلمانوں کا ایمان ہے الحمد للہ۔ اس وقت بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح دنیا بھر میں یہی تین تہذیبیں آپس میں متصادم ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ماضی میں صلیبی جنگیں ہوتی رہی ہیں جبکہ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی آپسی جنگیں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ نائن الیون کے وقت جب امریکہ اپنے اتحادی ممالک سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا تو اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں اب دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔ بلکہ افغانستان میں جب سوویت روس کے حصے بخرے ہوئے تو اس وقت جب اتحادی افواج (نیٹو) کے سربراہ سے پوچھا گیا کہ سوویت روس کی شکست اور سقوط کے بعد کیا نیٹو اتحاد کو ختم کر دیا جائے گا تو اس پر نیٹو کے سربراہ نے کہا تھا کہ ابھی مغرب کا اصلی دشمن اسلام باقی ہے اور لہٰذا اسلام کو ختم کیے بغیر ہم نیٹو اتحاد کو ختم کرنے کا خطرہ نہیںلے سکتے۔ فرانسس فوکویاما نے افغانستان میں سوویت روس کی شکست کے بعد کہا تھا کہ دنیا کے دو بڑے نظریات یعنی سوشلزم Socialism اور سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کی لڑائی میں بالآخر سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کی جیت ہوئی اور اب دنیا کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کو ماننے کے علاؤہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ بلکہ فرانسس فوکویاما نے سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کو اچھا آدمی اور سوشلزم Socialism کو برا آدمی کہہ کر اچھائی اور برائی کی جنگ بتایا تھا جس میں بقول فوکویاما کے بالآخر اچھے آدمی کی جیت ہوئی۔ یہ بات فوکویاما نے اپنی کتاب End of the history and the last man میں کہی تھی۔ اسی طرح Bernard Lewis وہ پہلا مغربی مفکر تھا جس نے Clash of Civilizations یعنی تہذیبوں کا تصادم کی لغت اختیار کی تھی۔ بعد میں پھر سیمیول پی ہنٹنگٹن Samuel P Huntington نے Clash of Civilizations نامی اپنی کتاب میں مغربی نظام کے سامنے موجود دو بڑے چیلنجز؛ اسلام اور چینی کنفیوشس تہذیب کی نشاندہی کی تھی جو مستقبل میں مغرب کیلئے درد سر بن سکتے ہیں۔ جارج فرائڈمین George Friedman نے یہی بات اپنی کتاب The Next Hundred years میں کہی تھی۔ اسی طرح امریکہ کے سابق سکریٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے بھی اپنی کتاب World Order میں یہی بات بڑی تفصیل سے کہی تھی کہ مغرب کے ورلڈ آرڈر کو اسلام اور چینی کنفیوشس تہذیب سے سب سے زیادہ خطرہ درپیش ہے۔ اگر کبھی مستقبل میں اسلامی ممالک اور چین قریب آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کنفیوشس تہذیب اور اسلامی تہذیب کے سنگم سے اگر ایک الگ بلاک قائم ہو جاتا ہے تو مغربی ورلڈ آرڈر کی موت واقع ہو جائے گی اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی آخری ہچکی لے رہا ہوگا۔ جس سرعت کے ساتھ چین کا اثر و رسوخ عالمی سیاست میں بڑھ رہا ہے اور جس تیز رفتاری سے اسلامی ممالک امریکہ کی گود سے نکل کر چین کی بانہوں میں سما رہے ہیں، اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ”گراں خواب چینی سنبھلنے لگے” ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ سنبھل گئے ہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ چین کا عالمی سیاست میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یہ الگ بات ہے کہ چین اب معاشی اور عسکری محاذ پر امریکہ سے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ امریکہ اب سوائے کڑھنے کے کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ یہ بھی ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی، فی الحال ہم کشمیری اور فلسطینی عوام کے تاریخی رشتے پر چل رہے اپنے موضوع پر ہی بات کرتے ہیں۔


جیسا کہ میں پہلے ہی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ دنیا کی تینوں بڑی تہذیبیں یعنی اسلام، یہودیت اور عیسائیت انہیں اپنا باپ تسلیم کرتی ہیں۔سرزمین کشمیر کے ایک مایہ ناز مؤرخ جناب پروفیسر جی ایم ڈی صوفی جو تقسیم ہند سے قبل پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ کشمیریات کے ڈین رہ چکے ہیں، اپنی مشہور کتاب
Kashir being a History of Kashmir from earliest times to our own میں کشمیری اور فلسطینی عوام کے رشتے کے بارے میں تفصیل سے لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دراصل کشمیری اور فلسطینی ایک ہی باپ کی اولادیں ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ دونوں کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے ملتا ہے۔ ملک کنعاں (موجودہ فلسطین) کے بنی قطورہ قبیلے کے سردار کی بیٹی سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی جو اولاد ہوئی، وہ بڑھتے بڑھتے جب ایک عظیم آبادی میں تبدیل ہوگئی تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے انہیں مال و اسباب دے کر فلسطین سے مشرق کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ کنعان یعنی موجودہ فلسطین سے ہجرت کر کے یہ لوگ پہلے وسطی ایشیاء پھر ترکستان کے شہر کاشغر اور آخر میں لداخ کے کوہستانی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے سونہ مرگ کے علاقے سے کشمیر میں داخل ہوئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اس زمانے میں کشمیر میں کوئی آبادی نہیں تھی اور کشمیر آنے والے یہ پہلے لوگ تھے جو آگے چل کر یہاں کے اصلی اور پشتینی باشندے کہلائے۔ ان لوگوں نے اس نئی جگہ کو ”کشیر” نام دیا اور خود کو ”کوشر” کہنے لگے جو عبرانی زبان کے الفاظ ہیں۔ واضح رہے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی زبان عبرانی تھی اور اس وقت ملک کنعاں یعنی فلسطین کی زبان بھی عبرانی ہوا کرتی تھی۔یہودی اسی نسبت سے آج بھی عبرانی زبان Hebrew میں ہی بات کرتے ہیں۔ اگر آپ آج بھی اسرائیل کے کسی یہودی سے بات کریں گے تو وہ آپ سے عبرانی زبان میں ہی بات کرنا پسند کرے گا کیوں کہ یہودی خود کو پیغمبروں کی اولاد اور عبرانی زبان کو پیغمبروں کی زبان سمجھتے ہیں۔ ایک یہودی مؤرخ بھی کشمیری عوام کی فلسطین سے اس ہجرت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کشمیری قوم بڑی بہادر قوم ہے، یہ لوگ ہر وقت وادی کے دروں کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں اور کسی بیرونی شخص یا حملہ آور کو اس کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے۔ ان لوگوں کی شکل و صورت من و عن اہل کنعان کے باشندوں سے ملتی ہے، ان کا کھانا پینا، رہن سہن اور لباس بلکل اہل کنعان کی طرح ہے۔ فطرتاً یہ قوم جنگجو اور محنت کش ہے تاہم مہمان نوازی میں بھی یہ لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ لوگ خود کو ”کوشر” کہتے ہیں اور ”کو شر زبان” میں بات کرتے ہیں۔ لفظ ”کوشر” عبرانی زبان کا لفظ ہے اور ”کو شر زبان” عبرانی زبان کی قریبی زبان ہے جس میں عبرانی زبان کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ زبان داردک ہے نہ کہ دیوناگری زبانوں جیسی۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی تاریخ پر شب خون مار کر یہاں کی تاریخ کو بھی تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس تاریخی چوری کی شروعات کلہن پنڈت نے ”راج ترنگنی” نامی کتاب لکھ کر کی تھی۔بدقسمتی سے کلہن کے بعد آنے والے ہر مؤرخ جس نے بھی کشمیر کی تاریخ پر قلم اٹھایا اس نے راج ترنگنی کو حرفِ آخر جان کر اس پر آمنا َو صدقنا کہا اور کشمیر کو ہندو خاکے میں رنگنے لگا۔ حالانکہ کلہن پنڈت خود شیومت Shaivmat کا ماننے والا تھا اس کے باوجود بھی اس نے کشمیری عوام کی تاریخ میں ہندوانہ رسومات کا ذکر چسکے لے لے کر کیا اور یوں ایک تاریخی اور انٹلیکچئول چوری کی بنیاد ڈالی۔کشمیری عوام کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ یہ یہودیوں کے گیارہ قبیلوں میں سے ایک کھویا ہوا قبیلہ ہے، اس مفروضے کے ڈانڈے بھی اسی ہجرت سے ملائے جاتے ہیں جو کشمیری قوم نے کنعاں سے نقل مکانی کرتے وقت اختیار کی تھی۔

کشمیری قوم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد ضرور ہیںلیکن یہودیوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہودی حضرت ابراہیم علیہ کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السّلام کی اولاد ہیں جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا اور اسی نسبت سے یہودیوں کو بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہا جاتا ہے جبکہ کشمیریوں کے بارے میں اس چیز کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خیر، فلسطین سے ہجرت کے بعد کشمیری عوام نے پہلے پہل اپنے آبائی دین ”دین اسلام” کو مضبوطی سے پکڑے رکھا لیکن رفتہ رفتہ صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ برصغیر میں پہلے بدھ مت اور بعد میں ہندومت کے عروج کے ساتھ کشمیری عوام پر بھی ان کے اثرات پڑے اور انہوں نے پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کو اختیار کیا۔ بلکہ اس بات کے تاریخی شواہد بھی ملتے ہیں کہ بدھ مت کے بڑے بزرگوں کی کانفرنس کشمیر میں ہی ہوتی تھی اور کشمیر میں ہی پہلی بار بدھ مت کے قوانین تانبے کی چادروں پر لکھے گئے اور پھر زمین کے نیچے دفن کیے گئے جن کے نشانات محکمہ آثارِ قدیمہ کو کشمیر کے خطہ لداخ میں ملے۔
صدیوں بعد جب ترکستان سے حضرت عبدالرحمان بلبل شاہ ترکستانی اور پھر ہمدان کے میر سید علی ہمدانیؒ اور ان کے بعد ان کے فرزند میر محمد ہمدانیؒ اسلام کی دعوت لے کر کشمیر آئے تو انہوں نے جب کشمیری عوام سے یہ کہا کہ دراصل اسلام وہی دین ہے جو ابراہیم علیہ السّلام کا دین تھا تو کشمیری قوم جوق در جوق اسلام قبول کرتی چلی گئی یہاں تک کہ پورے کشمیر میں صرف گیارہ گھر ہی ایسے بچے تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا جو ہندو ہی رہے۔ اسی وقت سے کشمیر میں یہ مثل مشہور ہوگئی ”کشیرچھاکہہ گھر” کیا کشمیر صرف گیارہ گھروں پر ہی مشتمل وادی ہے۔ اس بات سے آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ کشمیری قوم فطرت اور اسلام کے کتنے نزدیک رہی ہے لیکن جان بوجھ کر کشمیر کے اسلامی تشخص کی کہانی کو ہندو رنگ پہنا کر یہ کہانی الجھائی گئی ہے تاکہ اس قوم کا اسلام کے ساتھ رشتہ کاٹ دیا جائے اور یہاں کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے اسے ہندو وادی اور تیرتھ استھان کا درجہ دلایا جائے۔ امرناتھ یاترا اسی سلسلے کی کڑی ہے جسے مذہبی رنگت دے کر سیاسی فائدے بٹورے جا رہے ہیں۔ BJP اورRSS جیسی ہندو کٹر تنظیمیں کشمیری مسلمانوں کی ”گھر واپسی” یعنی مسلمان سے دوبارہ ہندو بنانے کے جو نعرے لگاتی رہتی ہیں یہ ایسی ہی ہوائی باتیں نہیں کرتیں بلکہ اس کیلئے الٹی سیدھی اور اوٹ پٹانگ تاریخ پیش اور میڈیا کے ذریعے کذب بیانی کر کے باضابطہ طور پر ماحول بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی ہندوانہ تاریخ لکھنے والے نام نہاد مؤرخوں جو سرکاری خاکوں میں رنگ بھرتے رہتے ہیں، کی ہر سطح پر ہمیشہ سے حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے اور مستقلاً جان بوجھ کر کی جا رہی ہے۔ یہ نام نہاد مؤرخ کبھی عقل سے پیدل صوفیت اور کبھی ریشیت کا شوشہ چھوڑ کر جو کہ اسلام سے زیادہ ہندو مذہب کے قریب ہیں، یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کی تاریخ ہمیشہ سے ہندو مذہب کی پروردہ رہی ہے اور ہندو مذہب ہی کشمیری عوام کا حقیقی مذہب رہا ہے۔ ایک عقل سے پیدل قلم کار نے تو علامہ اقبال کو کشمیر کا مسلمان سپوت لکھنے کے بجائے کشمیر کا مایہ ناز برہمن زادہ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ قلم کار کوئی ہندو نہیں آپ کی اور میری طرح ایک کشمیری مسلمان ہی ہے۔ یہاں میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ میں ذاتی طور پر صوفیت کا قائل ہوں لیکن اسلامی صوفیت اور تصوف کا، جس کے داعی مولانا جلال الدین رومی رہے ہیں اور ہماری وادی میں جس کے سب سے بڑے مبلغ اور نقیب علمدار کشمیر شیخ نورالدین نورانی رہے ہیں جنہیں کشمیری قوم شیخ العالم کے نام سے یاد کرتی ہے اور جن کے کشمیری کلام کو یہاں عرف عام میں ”شیخ شرکھ” کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے جس صوفیت کی تعلیم دی وہ کوئی دیومالائی اور عقل کی حدود سے باہر چیز نہیں تھی بلکہ شرعی اصولوں پر مبنی اور عقلی پیمانے پر کھری اترنے والی صوفیت تھی۔
یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے جس پر پھر کبھی بات ہوگی فی الحال ہم اپنے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔فلسطینیوں اور کشمیریوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ دونوں برادر قومیں ایک جیسی تقدیر لکھ کر لائی ہوئی ہیں۔ فلسطینی قوم اگر یہود کے ہاتھوں تختہ مشق بنی ہوئی ہے تو کشمیری قوم اہل ہنود (ہندو قوم) کے ہاتھوں تختہ مشق بن رہی ہے۔ جس طرح کشمیری اور فلسطینی آپس میں بھائی بھائی ہیں اسی طرح اہل ہنود اور اہل یہود بھی آپس میں دو بہنیں ہیں جن کی عادات و خصائل بالکل ایک جیسی ہیں۔ دونوں قومیں برابر کی مکار اور دغاباز ہیں۔ اس وقت اسرائیل کی طرف سے اہل فلسطین پر بالخصوص اہل غزہ پر جو قہر ڈھایا جا رہا ہے کچھ اسی طرح کی منصوبہ بندی کشمیری قوم کے بارے میں بھی اہل ہنود کی طرف سے کی جا رہی ہے اور اسرائیل اس معاملے میں بھارت کی قدم قدم پر رہنمائی کر رہا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی دفعہ 370 اور 35A کا خاتمہ ہے جس کے پیچھے اسرائیل کی یہی سوچ کارفرما ہے کہ پہلے بھارت سے ہندوؤں کو لا لا کر کشمیر میں بسا کر کشمیری مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کیا جائے اور پھر انہی ہندوؤں اور بھارتی افواج کے ذریعے کشمیری عوام کی اسی طرح نسل کشی کی جائے جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کی کر رہا ہے۔ جموں میں 1947 میں مسلمانوں کا جو قتل عام بھارتی ا فواج کی ایما اور مدد سے کیا گیا وہ اس کہ زندہ مثال ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خاکے میں رنگ بھرنے میں کچھ عناصر رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ اگر یہ رکاوٹیں دور ہوگئیں یا کمزور ہوگئیں تو جو منظرنامہ اس وقت آپ غزہ میں دیکھ رہے ہیں وہی منظرنامہ آپ کو کشمیر میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ان حالات میں یہ بات اور بھی تقویت پکڑتی جاتی ہے جب کہ دہلی میںبھارت کی مرکزی حکومت اس وقت ایک سخت گیر ہندہندو فاشسٹ جماعت کے ہاتھوں میں ہے جس کا مقصد ہی بھارت سے بالخصوص مقبوضہ جموںو کشمیر سے مسلمانوں کا صفایا کرنا ہے اور جو اول روز سے ہی اس کیلئے کوشاں ہے۔ خدا کرے کہ کافروں کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں اور شکست و ریخت اہل ہنود و یہود کا مقدر بن جائے (آمین)۔ زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی۔
٭٭٭