
سیدعارف بہار
بھارت کی ہندو تواحکومت نے صدیوں سے چلے آنے والے اسلاموفوبیا کی رفتار کو تیزکر دیا۔یہ تیزی مغربی دنیا کی تقلید میں اور مغربی دنیا میں مسلمانوں کا امیج بگاڑنے اور اور اپنا امیج بہتر کرنے کے مقاصد کے تحت لائی گئی۔نائن الیون کے بعد مغرب مسلمانوں پر غضبناک اور ناراض تھا۔بھارت نے اس ماحول کا فائدہ اُٹھانے کی ٹھان لی اور مغرب کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں مظلومیت کے افسانے میں بزعم خود شراکت دار بن بیٹھا۔بھارت نے مغرب کو یہ باور کرایا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مغرب ہی نہیں بھارت بھی تنگ وبیزار ہے۔اسرائیل کو خصوصی طور پرمظلومیت کی اس لڑی میں پرویا گیا۔اس طرح بھارت نے مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ سا قائم کیا۔اسی کے زیر اثر بھارت میں ہندوتوا مائنڈ سیٹ نے مسلمانوں کے خلاف معاندانہ کاروائیوں کا سلسلہ وسیع اور دراز ہوتا چلا گیا۔ کبھی گائے کو بچانے کے نام پر کبھی گوشت فروخت کرنے کے نام پرکبھی مسجدوں اور درگاہوں کی بنیادوں میں شیو جی کے اعضا ء کی تلاش کے نام پر اور کبھی ”لوجہاد“ کے نام پرمسلمانوں کو ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا۔اس میں تازہ اضافہ نبی کریم ﷺکی شان اقدس میں گستاخی کی مہم ہے۔بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپورشرما اور کمار جندل کی طرف سے توہین آمیز الفاظ کا استعمال طویل عرصے سے بھارت میں بوئے جانے والے اسلاموفوبیا کے بیج کا نتیجہ ہے۔ا س رویے نے پہلے بھارتی مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی اور کئی مقامات پر احتجاج کا آغاز ہوا۔بھارتی پولیس نے احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف سنگین مقدمات قائم کرکے عملی طور پر توہین کرنے والے منافرت پسندوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی شروع کی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب حالات کا اندازہ بیرونی دنیا کو ہوا تو مسلمانوں میں غم وغصہ کا اظہار کیا جانے لگا۔بالخصوص خلیجی ریاستوں میں پہلے عوامی سطح پر احتجاج شروع ہوا جس کے اثرات ریاستوں اور حکومتوں پر مرتب ہونا شروع ہوئے۔یوں عرب ریاستوں نے بھی اس رویے پر شدید ردعمل ظاہر کرنا شروع کیا۔سعودی عرب قطر کویت سمیت خلیجی ملکوں کی حکومتوں نے گستاخانہ کلمات کی مذمت کی اور بھارتی حکومت سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔خلیجی ملکوں میں ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ ”الا رسول اللہ یا مودی“ (اے مودی، رسول اللہ ہمار ا مال ومتاع اور سب کچھ ہیں)کے عنوان سے ٹاپ پر رہا۔عمان کے مفتی اعظم نے گستاخ رسول کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کی اپیل کی۔قطر اور کویت کی وزارت خارجہ میں بھارتی سفیروں کو طلب کرکے احتجاج کیا۔بھارت کے اقتصادی بائیکاٹ کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں۔ اوآئی سی سیکرٹریٹ نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ بھارت میں مسلمانوں کی حفاظت یقینی بنائے جائے۔بھارت نے او آئی سی او رپاکستان کے تبصروں پر احتجاج کیا۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارند باغچی نے کہا کہ اوآئی سی کا تبصر ہ گمراہ کن،تنگ نظر اور مذموم حرکات پر مبنی ہے۔اس دباؤ کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دونوں ملعون راہنماؤں کو پارٹی سے معطل کیا۔

یہ محض مسلمانوں کی اشک شوئی اور خلیجی ملکوں کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش ہے۔خلیجی ملکوں کا دباؤ بھارت کے لئے اس قدر اہم ہے کہ بھارت کی شہ رگ عرب ملکوں کے پیروں تلے آنے کے مترادف ہے۔دنیا میں اس وقت سب سے بھارتی جن بیرونی ملکوں میں ہیں ان میں خلیج کی چھ مسلمان ریاستیں سرفہرست ہیں۔متحدہ عرب امارات میں اس وقت چوبیس لاکھ بیس ہزار،قطر میں سات لاکھ پانچ ہزار،سعودی عرب میں پچیس لاکھ،کویت میں دس لاکھ،عمان میں سات لاکھ،بحرین میں تین لاکھ بھارتی مقیم ہیں۔اس کے برعکس برطانیہ میں صرف تین لاکھ نیپال میں پانچ لاکھ بھارتی مقیم ہیں۔بھارتی کے زرمبادلہ کا ترپن فیصد خلیجی ملکوں سے آتا ہے۔اگر خلیجی ممالک سے بھارتیوں کو نکال باہر کرنے کی مہم شروع ہوجائے تو نہ صرف لاکھوں لوگ بے روزگار ہو کر بھارتی اقتصادیات کے لئے خودکش بمبار بن سکتے ہیں بلکہ اس کی بیرونی ترسیلات بھی آدھی سے کم رہ جائیں گی۔اسی طرح مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک اگر نہر سویز سے بھارت کے مال بردار جہازوں کی آمدورفت میں رکاوٹیں کھڑی کریں تو بھارت کی معیشت خوفناک بھونچال کا شکار ہو سکتی ہے۔یہ باتیں اب عام ہونے لگی ہیں کہ بھارت میں ہندوتواکو کنٹرول کرنے کے لئے اب کچھ ٹھوس اقدامات اُٹھانا ہوں گی۔او آئی سی کے ایجنڈے کو انتہا پسندانہ قراردینے کی بات بھارت کے اسی اندر کے خوف کو ظاہر کر رہی ہے۔بھارت نے مغرب کی تقلید میں اسلاموفوبیا کا جن تو بوتل سے نکال لیا مگر وہ یہ بات بھول گیا کہ مغرب اور بھارت کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔بھارت مسلمان دنیا کے سمندر میں گھر ا جزیرہ ہے جس کی معیشت مسلمان ملکوں کے سہار ے پھل پھول رہی ہے۔خود بھارت کے اندرکروڑوں مسلمان ہیں جن کی بے چینی اور اضطراب بھارت کے سوشل سٹرکچر اور تانے بانے کو توڑ کر رکھ سکتی ہے۔مودی اور اس کے ہمنوابھارت کو اس مقام تک لارہے ہیں۔
٭٭٭