اسلامی نظام اورپاکستان

محمد احسان مہر

ہم مسلمان آج بھی برطانیہ کے چھوڑے (لارڈ میکالے) کے قانون کے سہارے مسائل کا حل اور کامیابی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں

ہمیں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منانا تو یاد ہے ، لیکن افسوس اسلامی نظام کا نفاظ اور اس پر عمل کرنابھول گئے

معاملات انفردی ہوں،اجتماعی ہوں یا ان کا تعلق عالمی برادری سے جڑا ہو ،اسلام انسانی حیات کے ہر گوشے اور ہر شعبے کے متعلق مکمل رہنمائی کرتا ہے

وطن عزیز پاکستان کی تحریکی سرگرمیوں،جو ش اورولولہ،عزم و مقاصد ہجرت کی صعوبتیں اور لازوال قربانیوں کی داستان کو سامنے رکھ کر اگر پاکستان کی 75سالہ تاریخ کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہم منزل سے دور بھٹکے ہوئے راہی کی طرح محو سفر ہیں۔ماضی کے حالات و واقعات بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بانی اکابرین کی صفوں میں کچھ ایسے عناصر بھی شامل ہوگئے جن کا مقصد صیح سمت میںپاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانا رہا ،اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت اور اس کے قاتل کو جس طرح موقع پر ہی ٹھکانے لگادیا گیاکئی طرح کے خدشات کو جنم دیتا ہے ۔

1947 سے انگریز سے آزادی کے بعد 1956تک پاکستان بغیر کسی آئینی حصار کے آگے بڑھتا رہااور اس کے بعد جب تک قوم کسی آئینی مسودے پر متفق ہوتی، بہت دیر ہو چکی تھی ،اور اسلام کے نام پر معرض وجود آنے والا ملک ؛سانحہ مشرقی پاکستان؛ کا شکا رہو چکا تھا ،لیکن افسوس ہم نے اتنے بڑے سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ہم مسلمان آج بھی برطانیہ کے چھوڑے (لارڈ میکالے) کے قانون کے سہارے مسائل کا حل اور کامیابی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں ، ، جبکہ قرآن جیسی عظیم ، مقدس اور لا ریب کتاب جو پوری انسانیت کے لیے ضابطہ حیات اور ہدایت کا سر چشمہ ہے ، ہمارے پاس موجود ہے۔

پاکستان کے ارباب اختیار اس حوالے سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ وہ ذاتی مفادات کے لیے ایوان بالا میں آئین اور قانون میں ترمیم کرتے رہے ، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم نے وطن عزیز میں اسلامی نظام کے نفاظ کے لیے نتیجہ خیز کوششیں نہیں کی ؟ہمیں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منانا تو یاد ہے ، لیکن افسوس اسلامی نظام کا نفاظ اور اس پر عمل کرنابھول گئے،حیر ت ا ور تعجب کی بات ہے کہ اسلامی مملکت کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر قرآنی آیات کے سامنے بیٹھ کر اسلام سے روگردانی پر مبنی فیصلے ہوتے ہیں،کیا اسلام مذاہب کے درمیان مکالمہ ،تہذیب وثقافت،سیاسی اور معاشی مسائل،تجارت،،عدل وانصاف انسانیت کی فلاح و بہبود کے ہر معاملے میں مکمل راہنمائی فراہم نہیں کرتا ؟اگر ایسا ہے تو75سال سے آئین اور قانون کے نام پر دجالی جمہوریت کے تحفظ کے لیے ؛واحداسلامی نظریاتی ایٹمی مملکت کی اساس سے کھلواڑ کیوں ہو رہا ہے ؟ عراق ،لیبیا،شام ،افغانستان،فلسطین اور کشمیر ،امت کے سینے پر کتنے زخم ہیں ؟اگر بہائو کے رُخ پر ہی بہنا ہے تو حالات کے سامنے ڈٹ کر قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور ان زخموں کا مداوا کون کرے گا ؟آ ج ہم عالمی برادری کی صف میں جہاں کھڑے ہیں مشکل اور کھٹن حالات کے باوجود اس عزم کے ساتھ کھڑے ہیں کہ عالمی سطح پر مثبت اور پر وقار انداز میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے ، لیکن :آج وطن عزیز سیاسی اور معاشی بحرانوں میں جکڑا ہوا ہے ،عالمی اور علاقائی مسائل سر اُٹھا رہے ہیں ورلڈ بنک اور آئی ،ایم ،ایف کی آشیر باد سے حکمران عوام کے منہ سے دو وقت کی روٹی چھیننے کے بعداب ان کی ہڈیوں سے گودا نکالنے کے لیے تیار کھڑے ہیں ،جہاں روٹی ،کپڑااور مکان کے وعدہ پر زندگی کا حق چھینا جا رہا ہے ،ان مسائل کے حل ،علاقائی اور عالمی چیلنجزسے نبردآزما ہونے کے لیے بحیثیت قوم ہمیں کھڑے ہونا ہو گا ،اور قومی سطح پر اس فرسودہ نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔

امن وامان کی بحالی معاشرتی انصاف سے مشروط ہے ،جب تک طاقتور کو جسٹس سسٹم سے نکلنے کی راہیں ملتی رہیںگی ،کمزور طبقات کا استحصال ہوتا رہے گا ،اور انصاف کے بغیر کوئی قوم کسی بحران پر قابو نہیں پا سکتی یہ فطرت کا قانون ہے۔ پاکستان میںانصاف کی فراہمی کا بنیادی ڈھانچہ POLICE کی تفتیش کے طریقہ کار کے گرد گھومتا ہے،یہ بدبودار نظام کتناگل سڑ چکا ہے اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے ایک جج کے سماعت کے دوران حالیہ ریمارکس سے کیا جا سکتا ہے،وہ کہتے ہیں(ہمارے سامنے قتل کے مقدمات زیر التواء ہیں،ہم کہہ کہہ کر تھک جاتے ہیں )محکمے میں موجود (کالی بھیڑیں) جسٹس سسٹم کو اندھیرے میں رکھ کر ظلم کے خلاف اُٹھنے والی آواز کو جھوٹی F.I.R،کراس ورشن اور 51؍7جیسی دفعات کے ذریعے قانونی پیچیدگیوں میں اُلجھا دیتے ہیں ،جس سے مظلوم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔اور ظلم کے پنجے مذید مضبوط ہوتے ہیں،ملک بھر میں جیلوں میں بند کمزور طبقات کے سینکڑوں بے گناہ قیدی اس کی زندہ مثال ہیں ، جبکہ کرمنل کردار کے حامل افراد ذاتی اثررسوخ اور وسائل کی دستیابی کی وجہ سے سرے عام دندناتے ہوئے خوف کی فضاء بنا کر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں ۔

معاملات انفردی ہوں،اجتماعی ہوں یا ان کا تعلق عالمی برادری سے جڑا ہو ،اسلام انسانی حیات کے ہر گوشے اورہر شعبے کے متعلق مکمل رہنمائی کرتا ہے ،75سالہ تجربات کو ایک طرف رکھ کرابتدائے اسلام کی 2دہائیوں کا جائزہ لے لیں ،مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ باطل قوتوں پر غلبہ پانے کا ہنر بھی مل جائے گا (ان شاء اللہ) عالمی یہودی سازشوں ،صہیونی طاقتوں کے باہمی اشتراک سے پیدا صورتحال سے نکلنے کے لیے یقین محکم کے ساتھ عملی طور پر اسلام کے وسیع دامن کی طرف لوٹ آئیں ،دنیا و آخرت کی کامیابی ہمارا مقدر ہو گی ،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو عادل حکمران عطاء فرمائے۔ (آمین)

٭٭٭