محمد عارف جان
آج کے اس گلوبل دور میں بھی سفر کی اہمیت اور افادیت میں کوئی کمی نہیں آسکی۔ہر سال کی طرح اس سال ہم نے خنجراب پاس(چائنا بارڈر)تک جانے کا منصوبہ جنوری میں بنا لیا تھا اور وسط مئی میں جب بابو سر ٹاپ کے کھلنے کی اُمید بنی تو ہم نے پھر رخت سفر باندھنا شروع کر دیا لیکن جون کے شروع کے دنوں میں خلاف معمول اتنی شدید برف باری ہوئی کہ راستے پھر سے بند ہو گئے۔ اس سفر میں راقم کے علاوہ معروف صحافی اورماہنامہ کشمیر الیوم کے چیف ایڈیٹر شیخ محمد امین تھے جبکہ ساتھ میں شجر خان بھی عازم سفر ہوئے۔ اسلام آباد سے12جون2023ء کو صبح10بجے ہم بذریعہ موٹروے مانسہرہ کے لیے روانہ ہوئے اور1بجے دن بولی بالاکوٹ میں المائدہ ہوٹل پر جا رکے۔ وہاں تازہ دم ہو نے کیلئے چائے پی۔ مرتضیٰ صاحب کی غیر موجودگی میں عارف اکبر صاحب نے میزبانی کی۔ مرتضیٰ صاحب سے فون پر ہی بات ہو سکی۔ مرتضیٰ صاحب المائدہ ہوٹل کے مالک ہیں اور ہمارے مشترکہ دوست بھی ہیں اُنہوں نے بہت اصرارکے ساتھ وعدہ لیا کہ واپسی پر یہاں رکناہے تاکہ بالمشافہ ملاقات ہوسکے۔
موٹروے سے اتر کر ڈمگلہ سے نیچے اترتے ہی واد ِ ی کاغان شروع ہو جاتی ہے اور دریائے کنہار کے ساتھ سفر شروع ہو جاتا ہے۔ شمالی علاقہ جات کی تقریباََ تمام وادیوں کی خصوصیت ہے کہ ہر وادی میں ایک دریا یا ندی ہے جو آنے والے سیاحوں کا خوشدلی سے استقبال کرتی ہے اور ساتھ ساتھ سفر بھی کرتی ہے۔ پانی اللہ تعالیٰ کی اہم ترین نعمت اور زندگی کی علامت ہے۔ بہتے صاف پانی کو دیکھنا اور اسکے ساتھ سفر ایک خوش کن تصور ہے جو جنت سے ماخوز ہے۔ جنت کے ادنیٰ نظارے بھی انسان کی روح کو تروتازہ کر دیتے ہیں۔دریائے کنہار وادی کاغان میں داخل ہونے والوں کا استقبال بسیاں کے مقام سے کرتا ہے اور بابو سر ٹاپ پر پہنچاتا ہے۔ بسیاں کے بعد شوبال پھر حسہ پل پھربولی اور پھر بالاکوٹ شہر آجاتا ہے۔

بالاکوٹ کی وجہ شہرت بنیادی طور پر دو ہیں ایک سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ کی تحریک المجاہدین ہے اور دوسری وادی کاغان کا دروازہ اور اہم شہر ہے۔ سید احمد شہید ؒ ہندوستان کے شہر بریلی سے دین اسلام کی سر بلندی کے لیے عازم سفر ہوئے اور شاہ اسماعیل شہید ؒ اور دیگر عظیم مجاہدین کے ساتھ سفر اور جہاد کرتے ہوئے بالآخر بالاکوٹ آپہنچے۔ یہاں پر اُن کا مقابلہ سکھ افواج سے ہوا اور دونوں حضرات اور دیگر ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا۔
بالاکوٹ میں رک کر ہم نے کچھ تصویر کشی کی اور آگے روانہ ہو گئے۔ اسکے بعد کیوائی قصبہ،کیوائی واٹر فال آئے یہاں سے ہی شوگران کو بھی راستہ جاتا ہے۔ شوگران کوہ مکٹرہ کے راستے میں ایک شاندار جگہ سے یہیں سے منا، پایا اور مکٹرہ چوٹی کے راستے جاتے ہیں۔
ہماس طرف نہیںگئے اور آگے کا سفر جاری رکھا اور پارس، جرید، مہانڈری سے ہوتے ہوئے کاغان شہر میں پہنچ گئے۔ وہاں رک کر چائے پی اور تازہ دم ہونے کے بعد ناران کے لئے عازم سفر ہو گئے۔
ناران ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جو بالاکوٹ سے80کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اوریہ وادی نسبتاََ کشادہ ہو کر ایک خوبصورت مقام بن گیا ہے۔ ناران کبھی تو واقعی ناران ہوتا تھا لیکن اب مکمل کنکریٹ سٹی بن چکا ہے۔ ارباب اختیار اب بھی آگر چاہئیں تو اسطرح کے تمام سیاحتی مقامات کی ایک ماسٹر پلاننگ کر دیں تو ہمارے یہ علاقے یورپ سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ ناران اس ساری وادی میں ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ ہر طرح کی سہولیاتِ زندگی دستیاب ہیں ایک سائیڈ پر دیو مالائی کہانیوں والی جھیل سیف الملوک ہے جو تقریباََ7کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ سیف الملوک کے بارے میں کئی کہانیاں اور ناول موجود ہیں جو بڑا تجسس پیدا کرتے ہیں ایک زمانے میں وہاں پیشہ ور داستان گو بھی ہوا کرتے تھے جو سیاحوں کو ایک مکمل کہانی سناتے تھے اور کچھ حاصل بھی کر لیا کرتے تھے۔ جھیل کاحسن ، دلکشی اس کا صاف پانی ارد گرد کا خوبصورت ماحول ۔۔۔زیادہ آمدورفت اور گاڑیوں کی وجہ سے ماند پڑتا جا رہا ہے اور اصلی سیاح کیلئے کشش بہت کم ہو کر رہ گئی ہے۔

ہم ناراں سے سرسری گزرتے ہوئے آگے نکل گئے اسکے بعد رافٹنگ کا ایرا شروع ہوتا ہے یہ ایک اچھا آپشن ہے اور صحت مند سرگرمی ہے۔ ہم یہاں بھی رکے بغیر روانہ ہو گئے۔ بٹہ کنڈی کے مقام پر رک کرتصویر کشی کی اور مزید سفر جاری رکھا۔ ہماری اگلی منزل براٹ سٹار ہوٹل بوڑاوہی تھا۔ مغرب کے وقت ہم وہاں پہنچے۔بوڑاوہی اپر کاغان میں ایک ابھرتا ہوا سیاحتی مقام ہے جہاں شور شرابا بہت کم ہے رات مکمل سکون ہو جاتا ہے صرف دریائے کنہار کے پانی کا شور باقی رہتا ہے۔
بوڑا وہی میں ہمارے میزبان سردار واجد افتخار صاحب تھے جو برائٹ سٹار ہوٹل کے ایم ڈی ہیں۔برائٹ سٹار ہوٹل بازار سے
آگے طرف خوبصورت جگہ پر واقع ہے اور سردار واجد افتخار صاحب کی گرم جوش میزبانی نے سفر کی ساری کلفت کو دور کر دیتی ہے۔ واجد صاحب ہر ایک مہمان کو ایسی محبت دیتے ہیں کہ بندہ کو ایسے لگتا ہے کہ کسی پرانے گہرے شناسا دوست کے پاس آگئے ہیں۔ ان کی میزبانی اور خدمت یاد رکھنے والی ہے۔ ہم نے رات انکے پاس گزاری۔اسلام آباد کی شدید گرمی سے جا کر وہاں اتنی سردی لگی کہ جسم مکمل تھرتھراہٹ کا شکار ہو گیا رات کو دو رضائیاں پیناڈول کھانے کے بعد جا کر قدرے سکون ہوا۔ بوڑا وہی کی صبح پر سکون اور خاموش تھی نہ فون کی چیخیں اور نہ سوشل میڈیا کا چکا چوند۔ برائٹ سٹار ہوٹل با ذوق سیاحوں خصوصاََ فیملی کے لیے اپر کاغان ویلی میں ایک بہترین جگہ ہے جہاں ہر طرح کے تحفظ اور رہنمائی کی جاتی ہے۔ ہم ناشتہ کے بعد آگے روانہ ہوئے اور بیسل سے ہوتے ہوئے جھیل لولو سر جا پہنچے۔ لولو سے کا نیلگوں پانی آسمان کی روشنوں کا اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ وہاں تصویر یں بنانے کے بعد بابو سر ٹاپ کے لیے روانہ ہوئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭