اعضا سے دس لاکھ انسانی خلیات کا جامع ترین نقشہ تیار

(کشمیر الیوم مانیٹرنگ ڈیسک)سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے لگ بھگ 33 انسانی اعضا سے دس لاکھ مختلف خلیات کا تفصیلی ڈیٹا جمع کرکے اس کا اٹلس تیار کیا ہے۔ توقع ہے کہ اس طرح صحت اور امراض کے علاج کی راہ ہموار ہوگی۔ویلکم سینگر سینٹر سے وابستہ محقق ڈاکٹر سارہ ٹایخماں نے بتایا کہ ’ہیومن سیل اٹلس‘ کو انسانی جسم کا گوگل میپ کہا ہے۔ اس میں بافتوں (ٹشوز) کی راہداریوں پر موجود طرح طرح کے انسانی خلیات اور کارکردگی کو دیکھا جاسکتا ہے۔

آخری اضافے کے تحت 24 انسانی بافتوں اور اعضا سے مزید پانچ لاکھ خلیات کو شامل کیا گیا ہے جن میں دل، جلد، اور دیگر خلیات شامل ہیں۔ ان سب کی تفصیلات ’سائنس‘ نامی جرنل میں 13 مئی کو چار مقالوں میں شائع ہوئی ہیں۔ مجموعی طور پر 83 ممالک کے 2300 سائنسدانوں نے اس میں حصہ لیا ہے۔اسے انسانی جینوم پروجیکٹ کا ہم پلہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے جس میں انسانی سرگرم جین کا پورا ڈرافٹ شامل ہے۔ منصوبے سے وابستہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر اسٹیفن کویک کہتے ہیں کہ ہم انسانی جینوم کو ہی زندگی کی اصل کتاب کہتے ہیں جو درست نہیں، ہرانسانی خلیہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور اسکا جائزہ لے کر ہم مختلف خلیات کے درمیان روابط، تندرستی، بیماری اور دیگر کیفیات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

یہ تو کمال ہو گیا،بعض لوگ تاحال کورونا کا شکارکیوں نہیں ہو ئے؟

(کشمیر الیوم مانیٹرنگ ڈیسک)ماہرین کے مطابق ایسے افراد نے حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل کیا ہوگادنیا بھر کے ماہرین ایک ایسی منفرد تحقیق میں مصروف ہیں جس کے ذریعے وہ یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ بعض لوگ تاحال کورونا کا شکار نہیں بنے؟

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق نیویارک اور واشنگٹن کی امریکی یونیورسٹی کے ماہرین متعدد ممالک کے ماہرین کے ہمراہ ایک ایسی عالمی تحقیق کر رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ انسانوں میں ایک خصوصی طرح کی جین دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ماہرین اس بات کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے تاحال دنیا بھر کے بعض لوگ کورونا جیسی وبا سے محفوظ ہیں؟

مذکورہ تحقیق کے لیے دنیا بھر سے 700 افراد نے خود کو رجسٹر کروالیا ہے جب کہ ماہرین مزید 5 ہزار افراد کی اسکریننگ اور تفتیش کرنے میں مصروف ہیں۔ماہرین کے مطابق اب تک سامنے آنے والی معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر کورونا سے تاحال محفوظ رہنے والے خوش قسمت لوگ احتیاط کرنے سمیت بر وقت حفاظتی اقدامات کرتے ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے کورونا کے آغاز سے اب تک فیس ماسک کا استعمال کیا اور انہوں نے بھیڑ میں جانے سے گریز کرنے سمیت خود کو محدود رکھا اور ساتھ ہی انہوں نے کورونا ویکسینز اور بوسٹر ڈوز لگوائے، وہ تاحال کورونا سے بچے ہوئے ہیں۔ساتھ ہی ماہرین نے بتایا کہ تاہم بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مکمل اہتمام کے ساتھ فیس ماسک بھی استعمال نہیں کیا، لیکن اس باوجود وہ کورونا سے محفوظ رہے۔

ماہرین کے مطابق اب تک کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ گزشتہ دو سال سے کورونا سے بچے ہوئے ہیں، ان کا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوگا اور ان میں اینٹی باڈیز کی سطح پر عام افراد کے مقابلے زیادہ ہوگی۔ماہرین کا ماننا ہے کہ تاحال کورونا سے محفوظ رہنے والے خوش قسمت افراد کی ناک، پھیپھڑوں اور گلے میں وہ خلیات انتہائی کم ہوں گے جو کسی بھی وائرس یا انفیکشن سے متاثر ہوتے ہیں۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر اب تک کورونا سے محفوظ رہنے والے افراد میں خصوصی طرح کی جین ہوگی جو انہیں وائرس اور انفیکشنز سے محفوظ رکھتی ہوگی اور اس بات کا علم لگانا سب سے اہم ہے، کیوں کہ اس سے مستقبل میں بیماریوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔ماہرین نے خصوصی طور پر امریکا میں تاحال کورونا کا شکار نہ ہونے والے افراد پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو خوشقسمت قرار دیا، کیوں کہ متعدد تحقیقات کے مطابق وہاں کی 60 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہو چکی ہے۔

بھارت میں ذات پات کا مکروہ نظام مظبوط ہورہا ہے

(کانگریس)جوانوں کی بھرتی میں ذات پوچھنے کا نظام پہلے سے چلا آرہا ہے: راجناتھ

(کشمیر الیوم مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے تینوں خدمات میں اگنی پتھ اسکیم کے تحت بھرتی کے لئے امیدواروں کی ذات کے بارے میں اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات پر وضاحت کی ہے کہ یہ کوئی نیا انتظام نہیں ہے اور یہ نظام پہلے سے ہی موجود ہے پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مسٹر سنگھ نے کہا، ”یہ مکمل افواہ ہے، جو نظام پہلے تھا اب بھی وہی ہے۔ یہ نظام آزادی سے پہلے سے چلا آ رہا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔جب ان سے دوبارہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ”پہلے کا نظام اب بھی وہی ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس پر مزید وضاحت دینے کی ضرورت ہے۔“ان سے پوچھا گیا کہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت ذات کا سرٹیفکیٹ طلب کیا جا رہا ہے، کیا آپ اس پر کچھ کہیں گے؟قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں جوانوں کی بھرتی کے لیے لائی گئی نئی اسکیم اگنی پتھ کے تحت درخواست فارم میں امیدوار کی ذات پوچھنے پر سوال اٹھا رہی ہیں

غیرقانونی صیہونی بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر عملدرامد میں تیزی

(کشمیر الیوم مانیٹرنگ ڈیسک)فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے غیر قانونی ہونے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود صیہونی حکومت اپنے جارحانہ اور غاصبانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد تیئیس چونتیس کے مطابق فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر غیر قانونی ہے مگر اس کے باوجود صیہونی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کے مغربی کنارے میں مزید اٹھائس کالونیوں کی تعمیر کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔عبری اخبار یسرائیل ہیوم کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے سلسلے میں سرگرم نحلاوہ نامی ایک تحریک نے اعلان کیا ہے کہ وہ عنقریب مزید اٹھائس کالونیوں کے تعمیری منصوبے کا آغاز کرے گی۔ صیہونی اخبار کے مطابق ان کالونیوں میں سے تین کی تعمیر کا کام امریکی صدر کے دورہ مقبوضہ فلسطین کے چند روز کے بعد شروع کر دیا جائے گا۔

تیرہ جولائی کو امریکی صدر جوبایڈن مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وہ تل ابیب کا دورہ کرنے کے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کا بھی دورہ کریں گے۔جوبایڈن کے سفر کے قریب غیر قانونی صیہونی کالونیوں کے منصوبوں پر عملدرآمد سے اس بات کی حکایت ہوتی ہے کہ امریکہ کے نزدیک صیہونی حکومت کی جارحانہ توسیع ہر ممکن شکل میں جائز ہے اور وہ اگرچہ عالمی ضابطوں اور بین الاقوامی قراردادوں کے منافی ہوں، مگر امریکہ اسکی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

پیس ناؤ نامی ایک صیہونی مرکز کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ نفتالی بینت کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر میں سابق صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے دور کی بنسبت باسٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایک ہفتہ قبل جرائم کی پیش گوئی کرنے والی ٹیکنالوجی کا تجربہ

(کشمیر الیوم مانیٹرنگ ڈیسک)سائنس دانوں نے90 فیصد درستگی کے ساتھ ایک ہفتہ قبل جرائم کی پیش گوئی کرنے والے مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔امریکا کی شیکاگو یونیورسٹی کے محققین نے یہ ماڈل ماضی کے جرم کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے 1000 مربع فٹ کے رقبے میں جرائم کی پیش گوئی کے لیے تیار کیا۔ یہ ٹیکنالوجی امریکا کے آٹھ بڑے شہروں میں آزمائی گئی جن میں شیکاگو، لاس اینجلس اور فلیڈیلفیا شامل ہیں۔یونیورسٹی آف شیکاگو کے پروفیسر اِشانو کا کہنا تھا کہ سائنس دانوں نے شہری ماحول کا ایک ڈیجیٹل جڑواں بنایا ہے۔ اگر اس میں ماضی میں ہونے والے وقوعات کا ڈیٹا ڈالا جائے تو یہ آپ کو بتادے گا کہ مستبقل میں کیا ہونے جارہا ہے۔ یہ جادوئی نہیں ہے، اس کی حدود ہیں تاہم سائنس دانوں نے اس کی تصدیق کردی ہے۔یہ آلہ 2002 کی فل مائناریٹی رپورٹ میں دِکھائی گئی ایک ٹکنالوجی کی یاد تازہ کرتا ہے، ایسی ہی ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی جاپان میں شہریوں کو ان علاقوں کے متعلق بتانے کے لیے استعمال کی جارہی ہے جہاں جرائم کا تناسب زیادہ ہے۔

یورپ گرمی کی شدید لپیٹ میں؟

(کشمیر الیوم مانیٹرنگ ڈیسک)ہزاروں لوگوں کے مرنے اور ہزاروں ہیکٹر جنگلاتی اراضی کے راکھ میں تبدیل ہونے کے بعد، یورپ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سیآنے والی گرمی کی لہروں اور جنگل کی آگ کے پھندے کو توڑنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔یورپ جل رہا ہے کیونکہ گرمی کی لہریں درجہ حرارت میں اضافہ کر رہی ہیں، فائر فائٹرز کو جنگل کی آگ بجھانے کے لیے سخت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہییہ ہیبدلتی ہوئی آب و ہوا کا براہ راست نتیجہ جو زیادہ تر خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔فرانس، اسپین اور پرتگال سمیت دیگر یورپی ممالک میں شدید گرمی کے نتیجے میں جنگلات میں لگی آگ ہزاروں ہیکٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے جس سے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا ہے۔کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ الائنس کے پالیسی مینیجر آرتھر وائنز کا کہنا ہے کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی آفات سے پیدا ہونے والے صحت کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کافی حد تک تیار نہیں ہے، حالانکہ یہ ایک”نیا معمول“بن چکے ہیں۔اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں صحت عامہ کا ایک حقیقی خطرہ ہے – اور بہت سے لوگوں کو صحت کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہاں تک کہ اس موسمیاتی ایندھن والے انتہائی سخت موسم کے براہ راست نتیجے کے طور پربہت سے لوگ مر جائیں گے،”وہ کہتے ہیں۔“اگرچہ ہم عام طور پر گرمی کی لہروں کا جواب دینے میں بہتر ہو گئے ہیں، لیکن پھر بھی ان واقعات سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ والے گروپ بوڑھے لوگوں کیہیں، وہ لوگ جو دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، اور وہ لوگ جو شہروں میں ہیں۔وائنز کا کہنا ہے کہ شمالی نصف کرہ میں درجہ حرارت کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، جنگل کی آگ اور شدید گرمی سے کمیونیٹیز تباہ ہورہی ہیں۔ آب و ہوا کا بحران آ چکا ہے۔فرانس کی محکمہ موسمیات نے پیر کو گرمی کے نئے ریکارڈ کی پیش گوئی کی ہے۔ برطانیہ میں بھی، کچھ علاقے 41 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی کے لیے تیار ہیں۔ گزشتہ مہینے کے آخری ہفتے میں پرتگال میں درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، اسپین میں 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت دیکھا گیا، جس کی وجہ سے صرف دونوں ممالک میں 1,000 سے زیادہ اموات ہوئیں۔

25 سالہ جیوانا فلیک ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کی رہائشی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے لیے ایسی گرمی کا مشاہدہ کرنا نیا ہے۔”یہ تقریباً 27 ڈگری سینٹی گریڈ ہے لیکن آج زیادہ سے زیادہ 32 سینٹی گریڈ تک جانا ہے۔ میں پچھلے سال ایسی ہیٹ ویو کو یاد نہیں کر سکتی،”وہ کہتی ہیں۔“اس سال، مہینوں کے دوران گرمی مختلف طریقے سے پھیلی تھی۔ مثال کے طور پر، مارچ ایک بہت گرم مہینہ تھا اور یہ بہت غیر معمولی ہے۔اس طرح ہمارے پاس پچھلے سال نہیں تھا،“وہ مزید کہتی ہیں۔

فلیک کے گھر میں ایئر کنڈیشننگ نہیں ہے، اس لیے گرمی کو شکست دینے کے لیے، وہ اور اس کے پیارے شہر کے آس پاس ساحلوں سمیت ٹھنڈی جگہوں پر جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”سائے میں بیٹھنے کے لیے پارک جانا، ہوا سے لطف اندوز ہونا بھی بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ایمسٹرڈیم سے فلیک جو شیئر کرتا ہے وہ فرانس میں پیرس کے رہائشی ماریئس بوئٹ کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔

فلیک کا کہنا ہے کہ یہ ایک تشویشناک ترقی ہے۔”یہ مجھے پریشان کرتا ہے کیونکہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے لئے قدرتی تھا اور یقینی طور پر ایمسٹرڈیم کے لئے قدرتی نہیں تھا۔ یہ یقینی طور پر موسمیاتی بحران اور انسانی عمل کا نتیجہ ہے،“ وہ کہتی ہیں۔

”اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جب میں خبروں اور پیشین گوئیوں کو دیکھتا ہوں کہ گرمی کی لہروں سے کتنے لوگ مرنے والے ہیں“۔”بوئٹ بھی اپنے تحفظات ظاہر کرتا ہے لیکن اپنے ملک کی حکومت پرکافی کام نہ کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ہمارے نئے منتخب صدر (ایمینوئل میکرون) نے پچھلے پانچ سالوں میں آب و ہوا کے لیے کچھ نہیں کیا،”وہ کہتے ہیں۔“میں اکثر یہ نہ سوچنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مجھے اور میرے دوستوں کو مستقبل میں کچھ سنگین چیزوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“

٭٭٭