افتخار گیلانی
10اکتوبر کی رات کو جب دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں پچھلے پانچ سالوں سے تہاڑ جیل میں قید حریت لیڈر اور بزرگ کشمیری لیڈر مرحوم سید علی گیلانی کے داماد، الطاف احمد شاہ کی موت کی خبر آئی، تو شاید ہی اس پر کسی کو حیرت ہوئی ہو۔ قیدیوں کو علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم نہ کرنے کے سبب پچھلے ایک سال میں یہ کسی سیاسی قیدی کی موت کا چھٹا واقعہ ہے۔ ان میں کشمیر سے جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد بٹ، تحریک حریت کے صدر محمد اشراف صحرائی کے علاوہ مہاراشٹرہ میں بائیں بازو کے مائونوازں کو مدد دینے کے الزام میں قید 83سال کے پادری سٹن سوامی، 33 سال کے پانڈو ناروتے اور 38برس کی عمر کے کنچن نانووارے شامل ہیں۔ نانووارے کی پچھلے سال جنوری میں دوران حراست غلط برین سرجری کی گئی تھی، جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ حیرت کا مقام ہے کہ عدالتیں، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوںکے اس استدلال کو تسلیم کرتی ہیںکہ جیلوں میں علاج و معالجہ کی سہولیات موجود ہیں، اس لئے اس گراونڈ کو لیکر ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔ مگر جیل میں کس قدر علاج و معالجہ کی سہولت دستیاب ہیں اور وہاں ڈاکٹروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے، اس کا میں خود گواہ ہوں۔ تہاڑ، جس کو ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے کی جیل نمبر تین میں واقعی ایک بہترین اسپتال ہے، جس کو ججوں و معائنوں پر آئے افسران اور کسی وقت غیر ملکی ٹیموں کو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے۔ 2002 میں جب نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن میں رہنے کے بعد مجھے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا، تو داخلہ کے وقت ہی مجھے جیل ڈاکٹروں کے رویہ کا ادراک ہوا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے آفس کے بعد کاغذی کارروائی پورا کرنے کیلئے مجھے جیل آفس سے متصل ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا، تو بجائے مجھے دیکھنے کے وہ مجھ پر لگائے گئے الزامات دریافت کرنے لگا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہوں، تو اس نے پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مجھے کوسنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر اور اس کے اسسٹنٹ کو نئے قیدیوں کو سیل یا وارڈوں میں بھیجنے سے قبل ان کی طبی جا نچ اور اگر وہ زخمی ہوں، تو اس کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ میری ناک اور کان سے خون رس رہا تھا۔ اس نے ان زخموں کو پولیس اور انٹروگیشن کے کھاتے میں ڈال کر مجھے دستخط کرنے کیلئے کہا۔ میں نے اسکو کہا کہ یہ خاطر داری چند لمحے قبل جیل آفس میں ہی ہوئی ہے۔ اسکا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسکو یقین نہیں آرہا تھا کہ مجھ جیسے غدار کو پولیس نے کیسے بخشا ہے۔ خیر اس نے جیل حکام کے حوالے کرکے مجھے سیل میں لیجانے کا اشارہ دے دیا۔ جیل نمبر تین کے اس اسپتال میں، جہاں الطاف شاہ کو کئی ماہ تک کینسر کا علاج کرنے کے بدلے بس پین کلر دیکر واپس سیل میں بھیج دیا جاتا تھا، کے او پی ڈی میں میرا اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اسٹیتھوسکوپ لگانا تو دور کی بات، ڈاکٹر قیدیوں کو دور رکھ کر ان کو ہاتھ لگائے بغیر علاج تجویز کرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یا تو مریضوں کو چھو کر وہ اپنا دھرم بھرشٹ نہیں کرنا چاہتے ہیںیا حکیم بقراط کی طرح وہ دور سے ہی چال دیکھ کر ہی تشخیص کرتے ہیں۔ بجائے مریض سے ا سکی بیماری کے بارے میں پوچھنے کے، وہ اس کے کیس کے بارے میں تفتیش کرکے، سزا ئیں بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی پوری اخلاقیات کا جیل کے ڈاکٹروں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ علاج کے نام پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوا دیتے تھے، چاہے پیٹ کا درد ہو یا نزلہ یا زکام۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہمار ے وارڈ میں ایک قیدی کو شدید نزلہ، زکام لاحق ہو گیا تھا اور دوسرے قیدی کو دست ہوگئے تھے۔ دونوں جب اسپتال سے واپس آئے تو معلوم ہواان کو ایک ہی گولی دی گئی تھی اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دونوں صحت یاب بھی ہوگئے۔ اس پر ایک دوسرے قیدی نے لقمہ دیا۔ کہ دراصل دونوں کے جسم میں گندگی جمع ہو گئی تھی۔ ایک کی گندگی ناک و منہ سے نکل رہی تھی اور دوسرے کی گندگی نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس ایک گولی نے اصل میں گندگی کو ٹھیک کردیا۔ تہاڑ میں گذرے آخری دنوں میںجب میرا کیس تقریباً ختم ہونے کے قریب تھا، میڈیا نے باہر دبائوبنایا ہوا تھا اور حکومت خود ہی اسکو واپس لینے پر غور کر رہی تھی، میں جیل حکام کا خاصا لاڈلا بن گیا تھا۔ اس عرصہ میں وہ میرا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک رات میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا کہ برداشت سے باہر ہوگیا۔ کئی بار الٹیاں ہوگئی تھیں۔ رات کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام بیرکوں اور وارڈوں کو بند کر کے جیل آفس میں جاکر آرام کرتے ہیں۔ میرے ساتھی قیدیوں نے شور مچاکر جیل آفس تک آواز پہنچانے کی کوشش کی۔ آدھے گھنٹے کے بعد ایک وارڈن آگیا اور بیرک کی سلاخوں کے باہر سے انکو ڈانٹ کر پوچھاکہ وہ کیوں شور مچارہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ قیدی کی طبیعت خراب ہے۔ اس نے نام پوچھا۔ گیلانی کا نام سنتے ہی اس نے کہا کہ مرنے دو اور واپس چلا گیا۔ قیدی بھی سکتے میں آگئے۔ تھوڑی دیرکے بعد بیرک میں موجود پچاس سے زائد قیدیوں نے دوبارہ چیخ و پکار بلند کی، کیونکہ کچھ عرصہ قبل اسی وارڈ میں ایک قیدی کی رات کے وقت موت ہوگئی تھی اور صبح سویرے پورے وارڈ کی کلاس لی گئی تھی، کہ انہوں نے جیل حکام کو کیوں آگاہ نہیں کرایا۔جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہدایت دی تھی، کہ ایسی صورت حال میں گلا پھاڑ کر چیخ و پکا ر بلند کیا کریں تاکہ آواز جیل کنٹرول روم تک پہنچے۔ ایک گھنٹے کے بعد دوسرا وارڈن، ڈاکٹر سمیت آگیا اور بیرک کھول کر مجھے اسپتال میں داخل کروایا۔ اگلے روز پہلے والا وارڈن اسپتال میں آکر معافی مانگ کر صفائی دینے لگا کہ وہ سمجھ رہا تھا کہ پارلیمنٹ والا گیلانی (مرحوم عبدا الرحمان گیلانی، جو پارلیمنٹ حملہ کیس میں انہی دنوں اسی جیل میں تھے، اور بعد میں بری ہوگئے) ہے، اس لئے اس نے دھیان نہیں دیا۔

الطاف احمد شاہ اپنے سسر سید علی گیلانیؒ کی طرح ہی زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ پرانے سرینگر شہر کے خانقاہ معلی محلہ کے مقیم ان کے والد محمد یوسف شاہ، شیخ محمد عبداللہ کے دست راست اور معروف تاجر بھی تھے۔ جب شیخ عبداللہ محا ذ رائے شماری کی قیادت کررہے تھے، تو ان کے ساتھ جیل بھی گئے ہیں۔ وہ ایک کٹر نیشنل کانفرنس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر زمانہ طالب علمی میں ہی وہ شیخ عبداللہ کے سحر سے ایسے وقت آزاد ہوگئے تھے، جب نیشنل کانفرنس کے خلاف شہر سرینگر میں ہلکی سی کانا پھوسی بھی موت کو آواز دینا تھا۔الطاف شاہ کے والد محمد یوسف شاہ کی سرینگر کے مرکز لال چوک میں فنٹوش ہوزری کے نام سے ایک دکان تھی۔ جس کی نسبت سے ان کو بھی الطاف فنٹوش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ د کان ایک طرح سے محاز رائے شماری بعد میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کی ایک پنڈ ہوتی تھی۔ غلام محمد بھدروائی، بشیر احمد کچلو، شیخ نذیر وغیر سینر نیشنل کانفرنس کے لیڈران دوپہر بعد ان کی دکان پر چائے کی چسکیاں لیکر گفتگو کرتے تھے۔۔۔۔بعد میں جب الطاف شاہ اپنے والد کے ساتھ اس دکان کو سنبھالنے لگے تو یہ جماعت اسلامی، پیپلز لیگ، آزادی پسند تنظیموںکے لیڈروں کا ٹھکانہ بن گئی۔ یہ ایک طرح سے سیاست کے دو کناروں کے لیڈروں کا ایک میٹنگ پوائنٹ بن گیا تھا۔ الطاف شاہ کی کاوشوں سے شہر سرینگر کے متعددنوجوان نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے سحر سے آزاد ہوگئے۔ وہ ایک زیرک سفارت کار اور ڈپلومیسی کے ذریعے ہر پیچیدہ معاملہ سلجھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
شیخ عبداللہ کے علاوہ شہر کے چند علاقوں میں میرواعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا اور یہ دونوں مل کر کسی تیسری قوت کو شہر میں پیر جمانے نہیں دیتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے تھے، عدم برداشت ان کے کارکنوں میںکوٹ کوٹ کر بھر ی تھی ۔ میں نے پہلی بار ان کو غالباً اکتوبر 1983میں دیکھا۔ اسکول کے امتحانات ختم ہوچکے تھے، تو میں سوپور سے اپنے ننہال سرینگر کے قدیمی علاقے مہاراج گنج آیا ہوا تھا۔ سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتا ب میں ان کے مضامین پڑھتا تھا۔ ان دنوں اسمبلی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی۔ شیخ عبداللہ کی موت کے ایک سال بعد نیشنل کانفرنس یہ انتخابات فاروق عبداللہ کی قیادت میں اور میرواعظ کی پارٹی عوامی ایکشن کمیٹی کے اشتراک کے ساتھ لڑ رہی تھی۔ جماعت اسلامی نے زینہ کدل سیٹ سے الطاف احمد کو کھڑا کیاہوا تھا۔ یہ شیروں کے ساتھ ان کی کچھار میں پنجہ آزمائی کے مترادف تھا۔لگا کہ باہر کچھ شور برپا ہے۔ ایک نوجوان درازہ کھٹکھٹا کر لوگوں سے جماعت اسلامی کے نشان ترازو پرووٹ ڈالنے کی استدعا کر رہا تھا۔ ان سے علیک سلیک تو نہیں ہوئی، مگر میں نے دیکھا کہ گلی میں لوگ ان کو کوس رہے تھے،گالیاں دے رہے تھے کہ وہ کیسے شیخ عبداللہ کی پارٹی کی مخالفت کرنے کی جرات کر رہا ہے۔مقامی مسجد کے پاس چند لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یوسف صاحب جیسے شریف آدمی نے اولاد نا خلف کو جنم دیا ہے وہ کیسے اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اس الیکشن میں ان کو بس 461ووٹ ملے تھے۔ 1986میں جب ان کی شادی علی گیلانی کی تیسری بیٹی زاہدہ سے طے ہوئی تو وہ کئی بار جیل کی ہوا کھا چکے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم اراکین میں شامل تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اگلے سال 1987کے الیکشن میں ان کو منڈیٹ نہیں دیا گیا۔کیونکہ مسلم یونائیٹد فرنٹ کا اتحاد، جو نیشنل کانفرنس۔کانگریس اتحاد کے خلاف بن گیا تھا،نے سید علی گیلانیؒ کو پارلیمانی بورڈ اور انتخابی مہم کا سربراہ بناکرامیدواروں کوسلیکٹ کرنے کا کام سپرد کر دیاتھا۔ اس وقت حکومتی اتحاد کے خلاف ایک زبردست لہر چل رہی تھی۔ فاروق عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے شہر میںخصوصاً غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بھارت میں اس پر اتفاق رائے ہے کہ ان انتخابات میں بے تحاشا دھاندلیوں اور نتائج میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہی 1989میں عسکری تحریک کا جنم ہوا۔ مینڈیٹ نہ ملنے کے باوجود الطاف شاہ ہی شہر سرینگر میں انتخابی اسٹریٹجی کی کمان کر رہے تھے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف شاہ (صلاح الدین) لال چوک حلقہ سے انتخابی میدان میں تھے، اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ محمد یاسین ملک ان کے انتخابی ایجنٹ تھے۔
الطاف شاہ سے میری باضابط پہلی ملاقات دہلی کے کشمیر ہائوس میں 1990میں ہوئی، جب میں جرنلزم کی پڑھائی کیلئے دہلی وارد ہوچکا تھا۔ ہمارے ایک رشتہ دار کشمیر یونیورسٹی میںپروفیسر وجیہہ احمد علوی امریکہ جا رہے تھے اور سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کیلئے انہوں نے مجھے شام کو کشمیر ہائوس آنے کیلئے کہا، جہاں و ہ ٹھہرے تھے۔ ان ہی کے کمرے میں الطاف شاہ بھی ٹھہرے تھے، جو چند روز قبل سرینگر میں حالا ت خراب ہونے کے سبب آئے تھے اور دہلی میں سفارتی اور میڈیا کے اداروں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ کشمیر ہائوس سے باہر کہیں رہائش پذیر ہونا چاہتے تھے۔ ڈنر کے بعد وہ میرے ساتھ ہی نکلے اور میرے ایک کمرے کے ڈیرے پر مقیم ہوئے۔ میں دن بھر کلاس اٹینڈ کرکے جب واپس آتا تھا تو اکثر کسی ہوٹل میں رات کا کھانا کھاتا تھا۔ مگر الطاف شاہ نے آتے ہی اسٹوو اور برتنوں کا انتظام کردیا اور کافی دنوں بعد ان کی وجہ سے گھر جیسا کھانا نصیب ہوتا تھا۔ چونکہ ان کے پاس مہمان وغیرہ آتے تھے تو انہوں نے کچھ عرصہ بعد الگ رہائش کا انتظام کردیا۔ چند ماہ بعد جب وہ عید منانے سرینگر جا رہے تھے تو ائیرپورٹ پر ان کو گرفتار کرکے جموں کے جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر (جے آئی سی) پہنچادیا گیا۔ ان ہی دنوں وہاںعلی گیلانی کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ ان کے سامنے ان کو تعدیب کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان کو پورے آٹھ ماہ تک ایک تاریک قبر میں رکھا گیا۔ روداد قفس میں سید علی گیلانی رقم طراز ہیں کہ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نوجوان اس قبر میں کیسے زندہ رہا؟ کسی جاندار شے کو ایک طویل عرصے تک سورج کی روشنی سے محروم رکھا جائے تو اس کی جان دھیرے دھیرے نکلتی ہے۔ جسم پھول جاتاہے اور اعضاء پر کائی جم جاتی ہے۔ پھر خودبخود اسکی موت واقع ہو جاتی ہے۔الطاف شاہ صرف اس لئے اس مقتل سے زندہ لوٹ آیا کہ اللہ نے ابھی اس کی زندگی باقی رکھی تھی، ورنہ پروگرام تو یہی لگ رہا تھا کہ گھٹ گھٹ کر، سڑ سڑ کر، ایڑیا ں، رگڑتے رگڑتے، وہ جان جان آفریں کے سپرد کردے ۔آٹھ ماہ بعداس اندھیری قبر میں رہنے کے بعد ان کو جموں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔جب انکے والد اور بچے ملنے آئے تو وہ ان کو پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ ان کا بدن پھول چکا تھا اور آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ اسلئے ان کی فیملی نے جموں میں ہی قیام کیا تاکہ ان کو ادویات اور خوراک کی فراہمی کرکے ان کی بحالی صحت کی کوشش کریں۔ غالباً چار سال اس جیل میں قید رہنے کے بعد ان کو اسوقت رہائی ملی جب حریت کانفرنس کی تشکیل کے خد و خال ترتیب دئیے جا رہے تھے۔ الطاف احمد شاہ اور حسام الدین ایڈوکیٹ دو ایسے اشخاص ہیں، جو سید علی گیلانی کے پیچھے ایک طرح سے اسٹریٹیجسٹ کے طو پرکام کرتے تھے۔ دونوں شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے، مگر پلاننگ اوراسٹریٹیجی ترتیب دینا ان کا خاصہ تھا۔ الطاف شاہ خاص طور پر خاصے لو پروفائل رکھتے تھے۔ پورا اسیٹج وغیرہ ترتیب دیکر وہ خود پیچھے یا سامعین میں ہی بیٹھ جاتے تھے۔ 2003 کے بعد جب کچھ سیاسی اسپیس کشمیری لیڈروںکو حاصل ہو گئی تھی، ان کے مشورہ پر علی گیلانی نے اس کا بھر پور استعمال کرکے عوامی رابط مہم شروع شروع کی۔ وہ اس گھر گھر مہم کے آرگنائزر تھے۔ جس کے نتیجے میں پونچھ راجوری اور جموں شہر سے لیکر گریز اور کرنا اور اوڑی کے دور دراز علاقوں تک علی گیلانی نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کی اور تقاریر کیں

جب بارہمولہ میں ان کے میزبان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تو علی گیلانی رات کو کسی مسجد میں رکتے تھے۔ اس سے عوامی رابط کی اور راہیں نکلتی تھیں۔ کیونکہ ان کے ساتھ مسجد میں پورا محلہ یا کم و بیش قصبہ کے لوگوں کا اژدہام بیٹھتا تھا۔ 2008میں جب کشمیر کی سیاسی تحریک کو جہت ملی، تو یہ عوامی رابط مہم اس کی ایک بڑی وجہ تھی۔ پھر 2010اور 2014کی اسٹریٹ ایجی ٹیشن جس کو کشمیر کا انتفادہ کہا جاتا ہے وہ اسی مہم کی پیداوار تھی۔ اس مہم کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی، جس کی وجہ سے 15ستمبر 2004کو حسام الدین کو سرینگر میں ان کے گھر پر نامعلوم بندوق بردارو ں نے ہلاک کر دیا۔ اسکے دو ماہ بعد 7نومبر 2004کو الطاف احمد جب افطار کرنے کے بعدنماز مغرب ادا کرنے مسجد کی طرف جا رہے تھے، ان پر فائر کرکے ان کو شدید زخمی کردیا گیا۔ان کے ایک پڑوسی ڈاکٹر نے ان کا بروقت علاج کرکے خون رکوانے کا کام کیا اور پھر سرینگر اور دہلی میں ڈاکٹروں کی ان تھک محنت اور لاتعداد آپریشن کروانے کے ایک سال بعد وہ شفا یاب ہوگئے۔ ان دونوں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ یہی تھی کہ لوگ علی گیلانی کے قریب آنے اور کھل کر سرگرمیاں کرنے سے باز رہیں۔سیدعلی گیلانیؒ نے 2007 میں اپنی تنظیم ”تحریکِ حریت کشمیر” بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف شاہ نے اہم کردار نبھایا اور بعد میں اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔خامیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سید علی گیلانی کے اردگرد ایک حصار بنایا ہواہے، جو کسی اور کو ان کے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ اسکی پہلی شکایت غلام قادر وانی نے کی تھی، جن کو سوپور میں گیلانی صاحب کے جا نشین کے بطوردیکھا جاتا تھا اور وہ بھی ان سے ایک طرح اپنی اولاد کی طرح کاپیار کرتے تھے۔ وہ تحریر اور تقریر دونوں میں واقعی سید گیلانی کے جانشین لگتے تھے۔ الطاف شاہ کے منصہ شہود پر آنے کے بعد وہ ان سے دور ہوتے گئے اور بعد میں جماعت اسلامی سے ہی کنارہ کش ہوکر جے کے ایل ایف میں چلے گئے تھے، ان کو بھی نامعلوم بندو ق برداروں نے 4نومبر 1998 کو بانڈی پورہ سے متصل ارن گائوں میںا پنے گھر پر ہلاک کردیا تھا۔ وانی کی طرح دیگر ایسے افراد بھی، جن کوعلی گیلانی کی سرپرستی حاصل تھی اور اگر یہ جاری رہتی تو ایک اثاثہ ثابت ہوسکتے تھے، اس دور میں ان سے دور ہوتے گئے۔ سوپور، جہاں علی گیلانی نے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور مشکل وقت میں اس قصبہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، میں عام شکایت تھی کہ الطاف شاہ نے ہی علی گیلانی کو سرینگر منتقل ہونے پر مجبور کردیا، جس کی وجہ سے یہ قصبہ سیاسی طور پر یتیم ہوکر رہ گیا۔


یکم اکتوبر کو این آئی اے کی درخواست کے جواب میں رام منوہر لوہیا اسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے: ”فی الحال مریض ایک سے زیادہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ شدید بیمار ہے ااسکو زندہ رکھنے کیلئے وینٹی لیٹر اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔مریض کو آنکولوجی سپورٹ اور پی ای ٹی اسکین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے مریض کو اوپر بیان کردہ مرکز میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ان کی بیٹی روا شاہ آخری وقت تک ان کے علاج کی اپیل کرتی رہی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’ڈاکٹروں نے بتایا کہ اْن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی‘‘۔ جیل کے ڈاکٹر مہینوں تک ان کو پین کلر دیکر واپس سیل میں بھیجتے تھے۔ کئی ماہ بعد جب ان کی طبیعت بگڑ گئی، تو ا نکو پہلے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں اور پھر دلّی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ کینسر ان کے جسم میں آخری اسٹیج تک پہنچ چکا ہے۔ تیزی سے پھیلتے کینسر کی وجہ سے اْن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں۔رْوا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا جائے جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے۔سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی تھی کہ انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کو ضمانت دی جائے کیونکہ اْن کی حالت بہت تشویشناک ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر جب انکو آل انڈیا انسٹیٹیوٹ شفٹ کیا گیا، تو پہلے اس آرڈر کی تکمیل میں حکام نے دو قیمتی دن لگائے اور جب ان کو منتقل کیا گیا وہ کوما میں چلے گئے تھے۔

واضح رہے تہاڑ جیل میں قید یاسین ملک، شبیر شاہ، آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام اور انجینئر رشید سمیت متعدد کشمیری سیاسی رہنماوں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ اور ہمشیرہ، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز حکام سے اپیلیں کرتی رہتی ہیں کہ اْن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے یا کم از کام ان کا تسلی بخش علاج کرایا جائے۔ الطاف احمد شاہ کی کسمپرسی میں موت اشارہ کرتی ہے کہ ان لیڈروں کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ ادھار کی سانسیں لے رہے ہیں۔ جموں کے جوائنٹ انٹروگشن سینٹر میں ان کو ایک اندھیری قبر میں دیکھ کر علی گیلانی نے لکھا تھا۔۔۔ حسن جنون نواز کا پایا جو التفات مستی میں آکے موت سے ٹکرا گئی حیات جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہیگی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل،گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کیلئے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اسکو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔ بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی جو منظر بھی ہے ناظر بھی۔
٭٭٭