اللہ بڑا غفورورحیم ہے

بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا تو اس نے کہا ’’ اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے میرا ربّ تو ان کی مکّاری سے واقف ہی ہے ‘‘۔ا س پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا ’’تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسف علیہ السلام کو رِجہانے کی کوشش کی تھی سب نے یک زبان ہو کر کہا ’’حاشا لِلّٰہ، ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔‘‘ عزیز کی بیوی بول اٹھی’’اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے ‘‘۔( یوسف علیہ السلام نے کہا )’’ اس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز)یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی۔ اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے‘‘۔بادشاہ نے کہا’’ انہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں۔‘‘ جب یوسف علیہ السلام نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ’’ اب آپ ہمارے ہاں قدرومنزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔یوسف علیہ السلام نے کہا ’’ ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ‘‘۔

اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف علیہ السلام کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔

سورہ یوسف آ یت نمبر 49تا 56تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی

افضل ترین اعمال

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ دین کے کاموں میں کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا‘ میں نے پوچھا اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘ میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوالات نہیں کئے‘ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ان کے جوابات عنایت فرماتے۔

(بخاری)

اللہ کی راہ میں زخمی ہونے والے کا مرتبہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ہے‘ وہ قیامت کے دن اس طرح سے آئے گا کہ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہو گا‘ رنگ تو خون جیسا ہو گا لیکن اس میں خوشبو مشک جیسی ہو گی۔

(بخاری)

اللہ کی راہ میں غبارآلود ہوئے قدموں کوجہنم کی آگ نہیں چھوئے گی

حضرت عبدالرحمٰن بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس بندے کے بھی قدم اللہ کے راستے میں غبارآلود ہو گئے‘ انہیں (جہنم کی) آگ چھوئے؟ (یہ نا ممکن ہے)۔

(بخاری)