تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔”خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے“، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔۔۔۔ جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا ۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اب اگر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔ اور اگر ہم ایک خاص مدّت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے؟ سنو! جس روز اس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آگھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔
سورہ ہود آیت نمبر 04 تا 10تفہیم القرآن سید ابوالااعلیٰ مودودی ؒ
ادین خیر خواہی کا نام ہے!!!!
حضرت ابو رقیہ تمیم بن اوس داری ؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”دین خیر خواہی (کرنے کا نام) ہے“ ہم نے پوچھا کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب کی‘ اس کے رسول کی‘ مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔“ مسلم شریف
فوائد و مسائل ۱۔ اس میں خیر خواہی کی اہمیت و فضلیت اور اس کی عمومیت کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خیر خواہی کا مطلب ہے‘ اس پر صحیح طور پر ایمان رکھا جائے اور اس کی عبادت اخلاص سے کی جائے۔کتاب اللہ کی خیر خواہی‘ اس کی تصدیق‘ تلاوت کا التزام‘ اس کی تحریف سے اجتناب اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت کی تصدیق‘ آپ ﷺ کے حکم کی اطاعت اور آپ ﷺ کی سنتوں کی پابندی کی جائے۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا مطلب ہے‘ حق میں ان کی اعانت‘ غیر معصیت میں ان کی اطاعت کی جائے‘ وہ سیدھے راستے سے انحراف کریں تو انہیں معروف کا حکم دیا جائے اور ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کیا جائے الا یہ کہ کفر صریح کا اظہار ہو اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا و آخرت کی اصلاح کے لئے ان کی صحیح رہنمائی کی جائے‘ انہیں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔ دور حاضر میں امت مسلہ کی بد حالی کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کو داؤ لگانے پر لگا ہوا ہے، نہ ہم مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کے خیر خواہ ہیں نہ رسول اللہ ﷺ کے اور نہ ایک دوسرے کے بارے میں ہمدردی اور خیر خواہی کے جذ بات ہی رکھتے ہیں۔