چلو یوسف (علیہ السلام) کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا‘‘۔اس پر ان میں سے ایک بولا ’’ یوسف علیہ السلام کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو، کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا‘‘ ۔اس قرار داد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا ’’ ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، کچھ چَر چگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دِل بہلائے گا ۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں ‘‘ ۔باپ نے کہا ’’ تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جب کہ تم اس سے غافل ہو ‘‘ ۔انہوں نے جواب دیا ’’اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑیے نے کھا لیا، جب کہ ہم ایک جتھا ہیں، تب تو ہم بڑے ہی نکمّے ہوں گے‘‘۔ اس طرح اصرار کر کے جب وہ اسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ’’ ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں ‘‘ ۔ شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا’’ ابّا جان، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھا گیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں ‘‘۔اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کر لے آئے تھے ۔یہ سن کر ان کے باپ نے کہا’’ بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا ۔ اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا، جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے ‘‘۔ ادھر ایک قافلہ آیا اور اس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا ۔ سقّے نے جو کنوئیں میں ڈول ڈالا تو(یوسف کو دیکھ کر) پکار اٹھا مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ ان لوگوں نے اس کو مالِ تجارت سمجھ کر چھپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے با خبر تھا۔
سورہ یوسف آ یت نمبر 9تا19 – تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی
شب قدر۔۔۔ہزار مہینوں سے بہتررات
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ مہینہ (رمضان کا) تم کو ملا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا ، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف
حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (بخاری )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری)
’’ریان ‘‘جنت کا دروازہ جسے روزہ دار ہی گزر جائے گا
حضرت سہیل ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جنت کا ایک دروازہ ہے جسے”ریان” کہاجاتاہے۔ قیامت کے دن اس سے روزہ دار ہی گزریں گے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ آواز دی جائے گی روزہ دار کہاں ہیں؟تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے ان کے سوا کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہوجائیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا کوئی اور اس میں داخل نہ ہوگا۔ (بخاری )