اِن کو نوح کا قصہ سناؤ، اس وقت کا قصہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھاکہ ”اے برادرانِ قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کرلو اور جو منصوبہ تمہارے پیشِ نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔ تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا (تو میرا کیا نقصان کیا)میں تم سے کسی اجر کا طلبگار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ(خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں۔“ انہوں نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبّہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی انہوں نے مان کر نہ دیا) ان کا کیا انجام ہوا۔پھر نوح کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو انہوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹَھپّہ لگا دیتے ہیں۔ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔موسیٰ نے کہا: تم حق کو یہ کہتے ہو جب کہ وہ تمہارے سامنے آگیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادوگر فلاح نہیں پایا کرتے“۔انہوں نے جواب میں کہا ”کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں“۔
سورہ یونس (آیت نمبر71 تا 78) تفہیم القرآن سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ