اللہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والاہے

وہ چونک کر بولے’’ ہائیں ! کیا تم یوسف علیہ السلام ہو؟ ‘‘اس نے کہا ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوٰی اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا ۔‘‘انہوں نے کہا۔’’ بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطا کار تھے ۔‘‘ اس نے جواب دیا ،’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے ، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والاہے ۔ جاؤ ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو ، ان کی بینائی پلٹ آئے گی ، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ ‘‘۔جب یہ قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا’’ میں یوسف علیہ السلام کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں ‘‘۔گھر کے لوگ بولے خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اسی پرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں ۔پھر جب خوشخبری لانے والاآیا تو اس نے یوسف علیہ السلام کا قمیص یعقوب علیہ السلام کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی ۔ تب اس نے کہا میں تم سے کہتا نہ تھا ؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔سب بول اٹھے ابا جان ، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں ، واقعی ہم خطا کار تھے ۔اس نے کہا ” میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کر دوں گا ، وہ بڑا معاف کرنے والااور رحیم ہے ‘‘۔پھر جب یہ لوگ یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیااور اپنےسب کنبے والوں سے کہا چلو ، اب شہر میں چلو ، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے ۔

سورہ یوسف آ یت نمبر89 تا 99تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقاء

حضر ت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ کو نکلے اور قبلہ رخ ہو کر دو رکعت نماز پڑھی پھر چادر پلٹی ۔
( بخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جانور ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ ( بارش کی کثرت سے ) گھر گر گئے راستے بند ہو گئے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑے ہو کر دعا کی ’’کہ اے اللہ ! بارش ٹیلوں ، پہاڑوں ، وادیوں اور باغوں میں برسا( دعا کے نتیجہ میں ) بادل مدینہ سے اس طرح پھٹ گئے جیسے کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے ‘‘۔
(بخاری )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے ۔ تو ، تو پانی برساتا تھا ۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو ، تو ہم پر پانی برسا ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی ۔
( بخاری)