تم جا کر اپنے والد سے کہو ’’کہ ابا جان ، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے ، ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا جوکچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں ، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے ۔آپ اس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجیے جہاں ہم تھے ۔ اس قافلے سے دریافت کر لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں ‘‘۔ باپ نے یہ داستان سن کر کہا’’ دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا ۔ اچھا ، اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا ۔ کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملائے ، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں‘‘۔پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ’’ ہائے یوسف !۔ ۔ ۔ ۔ وہ دل ہی دل میں غم سے گھٹا جا رہا تھا اور اس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔بیٹوں نے کہا خدارا! آپ تو بس یوسف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں ۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے ۔‘‘اس نے کہا ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا ، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو ۔میرے بچو ، جاکر یوسف اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘ ۔جب یہ لوگ مصر جا کر یوسف علیہ السلام کی پیشی میں داخل ہوئےتو انہوں نے عرض کیا’’ اے سردار بااقتدار ، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں ، اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں ، آپ ہمیں بھرپور غلّہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں، اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے‘‘ ۔(یہ سن کر یوسف علیہ السلام سے رہا نہ گیا) اس نے کہا’’ تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسف ؑ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جب کہ تم نادان تھے‘‘۔
سورہ یوسف آ یت نمبر81 تا 89 تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
انبیاء میں حضورﷺ کی مثال
حضرت ابی بن کعب ؓروایت کرتے ہیں کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھا بنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کاش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہو جاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے“۔ (ترمذی)
قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار
حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہو گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہو گی، اور سب سے پہلے قبر سے میں اٹھوں گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں۔ (ترمذی )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا انتخاب
٫حضرت ابو موسیٰ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا ۱ اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا۔ ( ترمذی)