اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا

ہم اس سے پہلے موسیٰ کو بھی کتاب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا ( جس طرح آج اس کتاب کے بار ے میں کیا جا رہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے) ۔ اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا ۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا ربّ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ، تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہِ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو ۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اس پر تمھارا رب نگاہ رکھتا ہے ۔ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی اور سر پرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی ۔ اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں ۔ اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا ۔ پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا ، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے ۔تیرا ربّ ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ۔بے شک تیرا ربّ اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔

سورہ ہود آ یت 110نمبر تا 118 تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

قاتل اور مقتول کے بارے میں حضورﷺ کا فرمان

حضرت سیدنا ابوبکرہ نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر آپس میں لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (اس کا جہنمی ہونا سمجھ میں آتا ہے) لیکن مقتول کا کیا جرم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اس کی خواہش بھی دوسرے ساتھی کو قتل کرنے کی تھی۔ ( متفق علیہ )

مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں، جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کر، جب وہ تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر، جب وہ تجھ سے خیر خواہی و نصیحت طلب کرے تو اس سے خیر خواہی کر، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کہکر جواب دے، جب وہ بیمار ہو تو اسکی مزاج پرسی کر اور جب وہ مرجائے تو اسکے جنازے میں شریک ہو

( اسے امام مسلم روایت کیا ہے)