یوسف علیہ السلام کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے۔ اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے ناآشنا تھے۔ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروایا تو چلتے وقت ان سے کہا’’ اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلّہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا‘‘ ۔انہوں نے کہا’’ ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے‘‘۔یوسف علیہ السلام نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ’’ ان لوگوں نے غلّے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو‘‘ ۔ یہ یوسف علیہ السلام نے اس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہوا مال پہچان جائیں گے ( یا اس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں۔جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ’’ ابا جان، آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلّہ لے کر آئیں۔ اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ‘‘۔ باپ نے جواب دیا کیا میں اس کے معاملے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے ابا جان! ’’ اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رَسَد لے آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بارِ شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا ‘‘۔
سو رہ یوسف آ یت نمبر 57تا 65تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
قیامت کی علامت
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا۔ اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔
(بخاری)
قیامت کب آئے گی؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ر وایت کرتے ہیں کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (حضور) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔
(بخاری)