اللہ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

ان بھائیوں نے کہا ’’خدا کی قسم، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔‘‘انہوں نے کہا ’’اچھا، اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے؟‘‘انہوں نے کہا ’’اس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے‘‘۔تب یوسفؑ ؑؑنے اپنے بھائی سے پہلے ان کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی اِس طرح ہم نے یوسف ؑکی تائید اپنی تدبیر سے کی اس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے ۔ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے۔ان بھائیوں نے کہا ’’یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسفؑ) بھی چوری کر چکا ہے‘‘۔ یوسفؑ ان کی یہ بات سن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی بس (زیر لب) اتنا کہہ کر رہ گیا کہ ’’بڑے ہی برے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا ’’اے سردار ذی اقتدار (عزیز)، اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں۔‘‘یوسف ؑ نے کہا ’’پناہ بخدا، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں۔ جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے۔‘‘جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا ’’تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
سورہ یوسف آ یت73نمبر تا80 تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی

عنقریب لوگوں پر دھوکے سے بھرپور سال آئیں گے

. حضرت ابو ہریرہ ؓ سیروایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب لوگوں پر دھوکے سے بھر پور سال آئیں گے۔ ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا۔ بد دیانت کو امانت دار سمجھا جائے گا اور دیانت دار کو بد دیانت کہا جائے گا۔ اور رْوَیبِضَہ باتیں کریں گے، کہا گیا: رْوَیبِضَہ (کا مطلب) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: حقیر آدمی عوام کو معاملات میں رائے دے گا۔
( سنن ابن ماجہ)

مفلس کون ہے؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟” صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپ نے فرمایا: “میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃلے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔”
(صحیح مسلم )