اویس بلال
امام سید علی گیلانی رحمت اللہ علیہ کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک نڈر اور عظیم رہنما تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی کشمیری عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کے لیے وقف کردی۔ وہ نہ صرف ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ ایک پرجوش مقرر، اسلامی فلسفہ حیات کے علمبردار، اور علامہ اقبال کے عظیم شیدائی بھی تھے۔ ان کی زندگی مسلسل خطرات سے دوچار رہی، متعدد قاتلانہ حملوں کے باوجود وہ اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ میری سید علی گیلانی رحم اللہ سے پہلی ملاقات 1986 میں ہوئی۔ اس کے بعد متعدد ملاقاتیں ہوتی رہیں، جن میں سے آخری ملاقات 1996 میں ضلع کشتواڑ کے امیر ضلع ماسٹر غلام نبی گندنہ کے گھر پر ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں سید علی گیلانیؒ نے نہ صرف تحریک آزادی کے حوالے سے اپنے نظریات پیش کیے بلکہ نصیحت آموز باتیں بھی کیں۔ ان کی ایک خاص نصیحت یہ تھی کہ اپنے مقصد سے کبھی ہٹنا نہیں چاہیے، اطاعت کا خاص خیال رکھا جائے، اور تحریک اسلامی کے لٹریچر کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ اپنے راستے پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتے تھے۔

سید علی گیلانی کی زندگی پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:30 اکتوبر 1995: حیدر پورہ، سرینگر میں ان کے مکان پر زبردست حملہ کیا گیا، جس کا مقصد انہیں قتل کرنا تھا۔31 دسمبر 1995: حیدر پورہ میں ہی دوسرا حملہ ہوا، جہاں بھارتی فورسز اور ان کے ایجنٹوں نے مکان پر دھاوا بولا، لیکن وہ محفوظ رہے۔10 دسمبر 1995: سوپور میں ان کے دو بھائیوں، سید میرک شاہ اور سید ولی محمد شاہ کے مکانات پر حملہ کیا گیا اور انہیں آگ لگا دی گئی۔18 دسمبر 1995: سوپور میں ایک اور حملہ ہوا، جہاں ان کے مکان کو بارود سے اڑا دیا گیا، اور یہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔یکم جنوری 1996: مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس کی ٹاسک فورس نے حیدر پورہ میں ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا اور دو گھنٹے تک تلاشی لی، لیکن کوئی قابل اعتراض چیز نہ ملی۔26 مارچ 1996: حیدر پورہ میں ان کے مکان پر ایک طاقتور دھماکہ کیا گیا، جس سے بیرونی دیوار تباہ ہوئی اور دروازوں، کھڑکیوں کو نقصان پہنچا۔19 اپریل 1996: حیدر پورہ میں ان کے مکان پر دستی بم سے حملہ کیا گیا، لیکن کوئی نقصان نہ ہوا۔9 مئی 1996: سوپور کے قریب ہرون گاؤں میں ان کے جلوس پر فائرنگ کی گئی۔ بھارتی فوج کے ایجنٹوں اور راشٹریہ رائفلز نے اس حملے میں حصہ لیا، لیکن وہ محفوظ رہے۔9 مئی 1996: چالیس بندوق بردار ان کے مکان میں داخل ہوئے، لیکن چوکیدار کی پھرتی سے حملہ ناکام ہوا۔16 مئی 1996: حیدر پورہ میں ان کے مکان پر راکٹ سے حملہ کیا گیا، جو مین گیٹ کے قریب پھٹا، لیکن وہ محفوظ رہے۔17 مئی 1996: حیدر پورہ میں دستی بموں سے حملہ کیا گیا، جس سے عمارت کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا۔8 جون 1996: حیدر پورہ میں بھارتی فوج اور ایجنٹوں نے دستی بم پھینکے اور سینکڑوں گولیاں برسائیں، لیکن وہ محفوظ رہے۔13-14 اکتوبر 1996: ایئرپورٹ روڈ سے ان کے مکان پر 30 منٹ تک گولیاں برسائی گئیں۔12 مارچ 1999: جموں میں استقبالیہ تقریب پر ہندو انتہا پسندوں نے حملہ کیا۔7 ستمبر 1999: ہندواڑہ میں ریلی پر بی ایس ایف کی 172 بٹالین نے حملہ کیا۔8 ستمبر 1999: ہندواڑہ میں ایک اور ریلی پر سپیشل ٹاسک فورس نے حملہ کیا، جہاں گولی ان کے قریب سے گزری۔30 جون 2000: ما گام ہندواڑہ میں ریلی سے واپسی پر بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا۔ان کے اپنے بیان کے مطابق، ان پر 40 سے زائد قاتلانہ حملے ہوئے، لیکن اللہ کے فضل سے وہ ہر بار محفوظ رہے۔امام سید علی گیلانی باطل حکمرانوں کے لیے ایک طوفان تھے۔ ان کی زبان کو روکنے کے لیے بھارتی سرکار اور کٹھ پتلی ریاستی حکومت نے ظلم کی انتہا کردی، لیکن وہ اپنی جائز جدوجہد سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ وہ اردو اور کشمیری زبان کے پرجوش مقرر، اسلامی فلسفہ حیات کے علمبردار، اور علامہ اقبالؒ اور سید مودودی ؒکے عظیم شیدائی تھے۔ ان کے خطابات میں ہمیشہ یہ نعرے گونجتے تھے: ہم کیا چاہتے۔۔۔آزادی ۔آزادی کا مطلب کیا ۔۔۔لا الٰہ الاللہ ۔اسلام کی نسبت سے ۔۔۔ہم پاکستانی ہیں ،پاکستان ہمارا ہے ۔سید علی گیلانیؒ علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے،یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔۔۔لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا۔ان کی زندگی اس شعر کی عملی تصویر تھی، کیونکہ انہوں نے ہر مشکل حالات میں اپنے ایمان اور مقصد پر استقامت دکھائی۔سید علی گیلانی رحمتہ اللہ علیہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی زندگی کشمیر کی آزادی کے لیے وقف کردی۔ وہ مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کی آواز تھے۔ بقول مدیر اعلیٰ ماہنامہ کشمیر الیوم ، وہ ہرفن مولا، نبض شناس، اور مظلوم عوام کی زبان تھے۔ ان کی جدوجہد اور قربانیاں ہمیشہ کشمیری عوام کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین