امام عالی مقامؓ اور جدوجہد آزادی کشمیر

14اگست 1947پاکستان کا قیام عمل میں آیااور15اگست 1947میںبھارت آزاد ہوا۔تب سے ہر سال یہ دونوں ممالک یوم آزادی زور شور سے مناتے ہیں ۔ان دونوں ممالک کے زیر انتظام ایک ملک ہے ،جسکا نام ملک کشمیرتھا۔برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں یہ ملک آزاد اور خود مختار رہ سکتا تھا یا پھر مملکت پاکستان کا حصہ بھی بن سکتا تھا۔لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔کہانی لمبی ہے ۔۔مختصر الفاط میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی مداخلت کے نتیجے میں ،دونوں ممالک یعنی بھارت اور پاکستان اس بات پر راضی ہوئے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائیگی اور لوگوں سے پوچھا جائیگا کہ وہ کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ۔آج تک 76سال ہوئے ،ابھی تک کشمیری قوم اپنا فیصلہ کرنے سے محروم ہے ۔مملکت پاکستان اگر چہ بار بار اس حق کو دینے کا اعادہ کرتی ہے تاہم بھارت پوری ریاست کو اپنا اٹوٹ حصہ کہہ کر ،اس ریاست کے حصے بخرے کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔کشمیری قوم حق خود ارادیت کی جدوجہد میں مصروف ہے ۔لیکن اس جدوجہد کو طاقت کے بل پر سختی سے دبا یا جارہا ہے ۔عالمی قوتیں اور ادارے خاموشی سے کشمیری عوام پرہورہے مظالم دیکھ رہے ہیں ۔ان حالات میں جب پوری دنیا محض تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے ۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری کیا کریں ۔کیا اپنی جدوجہد ترک کرکے ،غلامی کا طوق پہن کر ،زندگی کی بھیک مانگیںیا پھر امام حسین ؓ کے نقش پا کی پیروی کرکے جدوجہد جاری رکھیں ۔سید مودودیؒ نے حق کے حق ہونے کے حوالے سے ایک تاریخ ساز بات تحریر فرمائی ہے ۔لکھتے ہیں’’حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجائے خود ’حق‘ ہے، وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے؛ کیونکہ اس کا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے، دنیا کا ماننا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔ دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا۔ ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انھیں رد کر دیا اور باطل پرستوں کو اپنا رہنما بنایا” حزب سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے چیرمین سید صلاح الدین نے امام عالی مقام سیدنا امام حسین ؓ کے یوم شہادت پر اس سوال کا اسی انداز میں جواب دیا ہے جس طرح کا جواب سید مودودی نے دیا ہے ۔حزب سربراہ کہتے ہیں کہ “اسلام کی سربلندی کے لئے نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓنے کربلا میں اپنے خاندان اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے دنیاکی ظالم و جابر قوتوں کو پیغام دیا کہ اللہ کے بندے صرف اللہ کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں۔وہ سر کٹوانا قبول کریں گے لیکن باطل قوتوں کے سامنے کبھی سرینڈر نہیں کریں گے۔ 10محرم الحرام، بروز جمعہ 61ہجری سیدنا حضرت امام حسین اپنے فرزندوں، عزیزوں اور جاں نثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقامِ کربلا میں یزیدی لشکر سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز ہوئے۔آپ وقت کے یزید کے باطل اقدامات کے خلاف آہنی دیوار بن گئے۔ رخصت یا ہزیمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے عزیمت کی راہ اختیار کی۔ کربلا کے واقعے نے یہ ثابت کیا کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔ظلم ظلم ہے،بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام47 19سے بالعموم اور 1989سے بالخصوص کربلا کے مناظر سہہ رہے ہیں۔ہر صبح کربلا،ہر شام کربلا۔معصوم بچوں کو قتل کیا جارہا ہے۔چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔بلا کسی امتیاز کے ہزاروں اہل کشمیرکو جیلوں اور تعذیب خانوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔باظل قوتوں کی ہر طرف سے یلغار ہے لیکن کشمیری عوام نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ غلامی پر شہادت کو ترجیح دینا حسینیت ہے اور ظلم و جبر کا علاج اور مقابلہ بھی حسینیت ہی ہے۔اسی اصول پر عمل پیرا ہوکر ان شا اللہ حصول منزل تک جدوجہد جاری رہے گی اور ان شا اللہ یہ جدوجہد کامیاب بھی ہوگی۔یہ اللہ کا وعدہ ہے”حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجائے خود ’حق‘ ہے، وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے۔ان شا ء اللہ حق ہی کا میاب ہوگا۔