امام علامہ یوسف القرضاوی ؒ

اویس بلال

علامہ یوسف القرضاویؒ کانام محتاج تعارف نہیں، آپؒ عالم اسلام کے ممتازعالم دین ، مفکر، مجدد، ادیب اور شاعر تھے۔ آپ کی شخصیت مختلف کمالات کا مجموعہ تھی۔ حق گوئی مظلوم کی تائید اور ظلم کے خلاف جدوجہد علامہ یوسف القرضاوی ؒکی شخصیت کے بنیادی عناصر تھے۔ آپ نے جہاں قرآن وسنت کی خدمت کے لئے خود کو وقف کئے رکھا وہیں انہوں نے علم و فکر کے چراغ روشن کئے۔ انہوں نے عالم اسلام کے مختلف مسائل میں بے باکی کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔ علامہ یوسف القرضاویؒ نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی کے لئے جدوجہد میں صرف کی ان کی کوششوں کا دائرہ بہت وسیع اور مختلف میدانوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ان کا تعلق مصر سے ہے لیکِن چار دہائیوں سے آپؒ قطر میں قیام پذیر تھے۔ ایک سو سے زائد کتابوں کے مصنف تھے اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں بھی شائع ہو چکے ہیں ۔اسلامی قوانین کی تشریح اور اسلامی نفاذ سے متعلق ان کی تصنیفات نے عالمی شہرت حاصل کی اور اسلامی جدوجہد کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔ آپ کے دروس اور خطبات کی ویڈیوز کی تعداد ہزاروں میں ہے آپ کے معتقدین کی تعداد کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لیکر یورپ امریکہ اور بر صغیر تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کو دنیا بھر میں مجتہد، مجدد اور مفکر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں سب سے بڑے اسکالر فقیہ اور عالم دین کی حیثیت حاصل تھی۔ علامہ یوسف القرضاویؒ 9ستمبر 1926ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاعر اور سیاسی راہنما تھے۔ 9برس کی عمر میں حفظ مکمل کیا اس کے بعد انہوں نے جامعتہ الازہر میں تعلیم حاصل کی اور علوم اسلامیہ میں خصوصی مہارت حاصل کی۔ آپ اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البناءؒ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق اور ان کی بعض تصانیف کی وجہ سے انہیں کئی بار جیل جانا پڑا ۔یوسف القرضاوی ؒمصر کی وزارتِ مذہبی امور میں بھی کام کرتے رہے ۔1961ء میں آپؒنے مصر کو الوداع کہہ کر قطر کا رخ کیا جہاں آپ مختلف یونیورسٹیز میںپڑھاتے بھی رہے اور مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ۔2011ء میں جب مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو آپ نے1981ء کے بعد پہلی مرتبہ اپنے دیار مصر میں قدم رکھا اور پہلی مرتبہ عوامی سطح پر مصر میں ایک بڑے مجموعے عام سے خطاب کیا، جس میں تقریباً پچیس لاکھ عوا م شریک تھی۔ جمعہ کی نماز بھی آپ نے پڑھائی اور حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کا خیر مقدم کیا یوسف القرضاوی ؒ طویل عرصے تک اخوان المسلمون میں سر گرم رہے اخوان المسلمون کی قیادت نے آپ کو مختلف مناصب کی پیشکش کی لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا ۔آپ یورپین کونسل برائے فتویٰ اینڈ ریسرچ کے سربراہ تھے۔ انٹر نیشنل علماء یونین کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔ آپ کو عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔ اسلام آن لائن نیٹ پر لوگوں کے سوالات کے جوابات اور فتویٰ جاری کرتے تھے ۔رابطہ عالم اسلامی اور مجموعہ الفقیہ اسلامی کے آپ خصوصی رکن اور ذمہ دار رہے ،جامعہ الازہر کی رکنیت بھی حاصل تھی جہاں سے آپ کو معطل کر دیا گیا مسلمانوں کی اکثریت آپؒ کو معتدل قدامت پسند اور جدید حالات سے ہم آہنگ عالم دین قرار دیتی تھی ۔آپ عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی کرتے رہے۔

انٹرنیشنل ٹی وی چینل الجزیرہ پر ان کا پروگرام الشریعہ و الحیاء بہت مقبول تھا تقریباً چھ کروڑ سے زائد لوگ اسے دیکھتے تھے۔ ان کا شروع سے یہ نظریہ رہا کہ مسلمان دوسروں کو مداخلت کا موقع دینے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کریں۔ مغرب خاص کر امریکہ میں 1999ء سے آپ کے داخلے پر پابندی عائد تھی۔ 2008 ء سے برطانیہ نے بھی آپ کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگا رکھی۔ قبل ازیں 2004ء میں آپ نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب متحدہ عرب امارات بحرین اور مصر کی جانب سے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کیے جانے کے بعد مذکورہ ممالک نے دہشت گردوں کی ایک فہرست جاری کی جس میں 59ویں نمایاں شخصیات اور بارہ خیراتی اداروں کا نام شامل ہے جنہیں دہشت گرد قرار دیا گیا ان میں شیخ علامہ یوسف القرضاویؒ کا نام بھی شامل تھا۔حالانکہ اسی سعودی حکومت نے انہیں اس سے پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ اسلام کی نشرو اشاعت اور دینی علوم کی خدمات کی بنیاد پر آپ کو دسیوں ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں عرب کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ ،دبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ ۔سلطان حسن البناء ایوارڈ سر فہرست شامل ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک طویل عرصے تک آپ سعودی عرب اور آل سعود کے یہاں بہت اہمیت کے حامل تھے گزشتہ ماہ ایک تصویر سوشل میڈیا میں وائرل تھی جس میں سابق سعودی شاہ فرمانروا شاہ عبداللہ ایک انتہائی عقیدت ومحبت کے ساتھ علامہ یوسف القرضاویؒسے ملاقات کر رہے ہیں بتایا جاتا ہے کہ سعودی حکومت نے علامہ یوسف القرضاوؒ ی کو عہدوں کی پیشکش بھی کی تھی لیکن آپ نے قبول کرنے سے انکار کیا۔ آپ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے برصغیر پاک بھارت کے مشہور و معروف عالم دین مجدد سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ کو بھی مختلف طریقوں سے ستایا گیا پابند سلاسل کیا گیا پھانسی کی بھی سزا سنائی گئی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا نے اپنی گمراہی اور سخت گیری کے باعث بہت سے نبیوں اور داعیان حق کو خاک و خون میں نہلا دیا ان پر ظلم و ستم ہوئے جس جس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی تو ان کو قید و بند کی صعوبتوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ 26ستمبر2022ء کو 96 سال کی عمر میں مصر کے علامہ یوسف القرضاوی ؒ اس دنیاے فانی سے کوچ کرگئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو آگے بڑھانے والے یہ ستارے ظالم وجابر حکمرانوں کے آگے کبھی نہیں جھکے۔ انہوں نے غیر مسلموں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا، کسی ظالم کا ظلم انہیں حق بات کہنے سے نہیں روک سکا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا کام زیادہ سے زیادہ لے ،قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

٭٭٭