
سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر
وہ جہاں ایک معتبرعالم اور داعی الی اللہ تھے وہیں وہ بہترین مربی و مقرر اور کلام اقبال ؒکے شارح اور ترجمان بھی تھے
پاکستان کے موجودہ حالات کا ایک روحانی سبب یہ بھی ہے کشمیر میں دی جانے والی لاکھوں شہداء کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا
اگر پالیسی سازوں کی بے تدبیری سے تحریک آزادی کشمیر کمزور ہوئی تو تاریخ اور شہداء کا خون کبھی معاف نہیں کرے گا
تحریک حریت جموں وکشمیر کے عظیم قائد اور ہندوستانی استبداد کے خلاف مزاحمت اور استقامت کا استعارہ جناب سید علی شاہ گیلانیؒ کو ہم سے رخصت ہوئے ایک برس مکمل ہوا ہے ،یقینا ہر فانی انسان نے اپنی مہلت عمل کی تکمیل پر اس دنیا سے رخصت ہونا ہے لیکن عظیم ناقابل فراموش تاریخ ساز ہیں وہ ہستیاں جو نا مساعد حالات میں بھی کسی بڑے مقصد کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی آنے والوں کے لیے نشان منزل واضح کر جائیں،سید علی شاہ گیلانی ؒ کا شمار انہی تاریخ ساز شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی پرصعوبت تعلیمی سفر طے کیا تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے تو سید مودودی ؒ کے انقلابی لٹریچر کے قاری ہی نہیں ترجمان بنے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستانی تسلط قائم ہوتے دیکھا تو اہل کشمیر کے نام نہاد مسیحا شیخ عبداللہ کی قلا بازیاں اور ہندوستانی قبضے کی سہولت کاری دیکھی ۔

جہاں تحریک اسلامی کے پلیٹ فارم سے اقامت دین کے لیے مصروف جہاد ہوئے وہیں آزادی کشمیر کی منزل کو اقامت دین کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا، یوں دونوں اہداف ان کی زندگی کے اہداف ٹھہرے جن کے حصول کے لیے انہوں نے زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کردیا وہ جہاں ایک معتبرعالم اور داعی الی اللہ تھے وہیں وہ بہترین مربی و مقرر اور کلام اقبال کے شارح اور ترجمان بھی تھے۔ ایک طرف ہندوستانی استبداد کے استعماری ہتھکنڈوں کے توڑ کے لیے سیاسی ،تہذیبی اور تزویرانی ہر محاذ پر جان گسل جدوجہد کی وہیں دوسری طرف نئی نسل کو اقبالؒ کا شاہین بنانے اور آزادی حریت کاکارواں منظم کرنے میں کردار ادا کیا ۔دشمنوں کے عزائم بے نقاب کئے اور ان کے آلہ کاروں کی وار داتوں اور گھاتوں سے بھی خبردار کیا،مسجد کا ممبر ہو جلسے کا سٹیج ہو ،اسمبلی کا فلور ہو یا جیل و تعذیب خانوں کی کوٹھڑیاں’’اذان‘‘ کے مدیر ہوں یا حریت کے عظیم مدبر رہنما اللہ کی کبریائی بلند کرنا اور کشمیرکی آزادی ان کا وظیفہ حیات رہا ۔وہ برصغیر کے ان چنیدہ قائدین میں سے ہیں جنہوں نے جیل و قید وبند کی زندگی کو بھی با مقصد بناتے ہوئے آپ بیتی کی شکل میں ایک عظیم مزاحمتی لٹریچر فراہم کیا ’’قصہ درد ہو‘‘’’روداد قفس‘‘ ہو یا ’’وولر کنارے‘‘اور دیگر کتب ان کے قلم کے شاہکار بھی ہیں ۔واردات قلبی کا مظہر بھی ہیں اور سوانح بھی ہیں جن کے مطالعے سے ان کے کردار کی عظمت و استقامت،ہندوستانی استبداد کے استعماری ہتھکنڈوں اور کشمیری ملت کی اپنی کمزوریوں و توانائیوں سے قاری آشنا ہوتا ہے۔ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ حالات سے متاثر ہونے کی بجائے حالات کو متاثر کرتے تھے تحریک آزادی کے حوالے سے ان کا واضح اور دوٹوک نکتہ نظر تھا کہ یہ تحریک برصغیر تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اس کی روشنی میں ریاست جموں وکشمیر اس کا جزو لاینفک ہے اس لیے سرینگر کے لال چوک میں کھڑے ہو کر ان کا دیا ہوا نعرہ ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘پوری تحریک کا ماٹو اورنصب العین بن گیا انہوں نے نہ صرف تحریک آزادی کو واضح نصب العین دے کر اس کی آبیاری اور پہرے داری کی حریت کی صفوں اضمحلال سے بچایا بلکہ پاکستان کی ڈگمگاتی حکومتوں کو بھی رہنمائی اور سہارا فراہم کیا۔جنرل پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کو جسے وہ تقسیم کشمیر کا پیش خیمہ سمجھتے تھے واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے دوٹوک پیغام دیا کہ اہل کشمیر کے بنیادی حق پر کمپرئومائز کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے ۔راقم کی خوش قسمتی ہے کہ ان سے تین دہائیوں سے زائد ایک ذاتی تعلق قائم رہا ان سے ملاقاتوں اور مشاورت کی صورت میں ان کی یادیںزندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں اور جب تک رابطے بحال رہے فون پر بھی ان کی راہنمائی سے مستفید ہوتے رہے ایک ساتھ حج ،عمرہ کی سعادت بھی ملی۔بین الااقوامی کانفرنسوں میں ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کا پیغام پہنچایا عالمی اسلامی تحریکوں سے ان کا نفرنسوں کے مواقع پر ان سے ٹیلی فون پر یکجہتی کے لیے گفتگو کا اہتمام کیا جس پر وہ ہمیشہ بہت تحسین کرتے تھے۔ان کی تجاویز اور راہنمائی کی روشنی میں اسلامی تحریک اور ریاست پاکستان تحریک کی پشتیبانی کے لیے اقدامات کرتے رہے۔ ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے سب سے بڑا سول ایوارڈ ’’نشان قائد اعظم‘‘دے کر ایوارڈ کی شان دوبالا کی انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ تحریک آزادی کے حوالے سے ان کے واضح موقف پر استقامت کا مظاہر کیا جائے اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کا پہلے سے زیادہ اہتمام کیا جائے اور5اگست2019ء کے بعد کے ریاست کے حوالے سے ہندوستانی حکومت کے اقدامات کا تدارک کرنے کے لیے ہر محاذ پر جدوجہد کی جائے ،بد قسمتی سے جس پاکستان کی تکمیل کی جنگ کو وہ اپنا ایمانی نصب العین سمجھتے تھے آج وہ پاکستان،سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کی بے تدبیریوں کی وجہ سے ساری دنیا میں جگ ھنسائی کا ذریعہ بن چکا ہے ریاست کے ذمہ دارشخصیات اور قومی ادارے جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر نریندرمودی کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنا تھا سیاسی سفارتی اور میدان کار زار میں تحریک مزاحمت کی پشتبانی کا حق ادا کرنا تھا وہ ملک کے اندر باہم ایک دوسرے کو فتح کرنے اور اپنی ’’انا‘‘کی دھاگ بٹھانے میں مصروف ہیں۔

نریندرمودی کے بھیانک عزائم کشمیریوں کے خلاف ہی نہیں ہیںبلکہ پاکستان اور پوری ملت اسلامیہ اسکے نشانہ پر ہیں ۔ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ نارواسلوک اور نبی کریم ﷺ کی شان میں نریندر مودی کی سرپرستی میں توہین اقدامات نے پورے عالم اسلام میں عوامی سطح پر نریندرمودی کے خلاف ایک لہر اٹھا دی ضرورت اس امر کی تھی کہ اس فضا سے ا ستفادہ کرتے ہوئے نریندرمودی کو نشان عبرت بنایا جاتا لیکن صد افسوس کہ ۔۔وائے ناکامی ! متاعِ کارواں جاتا رہا۔۔۔کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔۔۔۔اور ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔۔۔۔بہر حال حالات کچھ بھی ہوں سیدعلی گیلانی کے مشن کے علمبردار منزل کے حصول تک اپنا جہاد جاری رکھیں گے۔ان شاء اللہ
بھارتی ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیر کا بچہ بچہ سرنڈر کرنے کی بجائے منزل کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم ہے اور بین الاقوامی سطح پر مودی کو ایک ہٹلر ثانی قراردیا جارہا ہے مسلم دنیا میں عوامی سطح پر مودی کے خلاف غم و غصے کی شدید لہر ہے اس فضا سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ،پاکستان کی حکومت اور ریاستی ادارے اور پوری پاکستانی قوم کشمیری شہداء کے خون کے مقروض ہیں یاد رکھیں اگر پالیسی سازوں کی بے تدبیری سے تحریک آزادی کشمیر کمزور ہوئی تو تاریخ اور شہداء کا خون کبھی معاف نہیںکرے گا۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا ایک روحانی سبب یہ بھی ہے کشمیر میں دی جانے والی لاکھوں شہداء کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ جس طرح سید علی گیلانی نے آخری سانس تک استقامت د کھائی اسی طرح کی استقامت اس تحریک کو بحران سے نکال بھی سکتی ہے اور منزل سے ہمکنار بھی کرسکتی ہے ۔سید علی گیلانی کی پر عزیمت زندگی کا یہی سبق ہے جسے ہمیں ازبر بھی کرنا چاہیے اور عمل پیرا بھی ہونا چاہیے ۔
٭٭٭