کشمیر آزاد کیوں نہیں ہوا۔۔؟ ماہنامہ کشمیر الیوم کے تحت امام گیلانی کی یاد میں تقریب کا احوال
منتظر مقصود
کشمیر آزاد کیوں نہیں ہورہا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آر پار کشمیر اور پاکستان سمیت ہر خطے میں بسنے والے خاص و عام کے زبان پرہے کیونکہ سات دہائیوں پر محیط طویل ترین جدوجہد کا نتیجہ فی الحال زیرو بٹہ زیرو ہے۔کشمیریوں کی بے شمارقربانیاں، جانوں کے نذرانے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تین جنگیں اپنی جگہ لیکن ریاست کشمیر پر قبضہ وہیں کا وہیں ہے۔۔ اقوام متحدہ میں موجود قراردادیں بھی گل سڑچکی ہیں لیکن نہ بھارت اپنی انا اور ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹا نہ پاکستان سیاسی و سفارتی حمایت سے آگے بڑھا۔۔ بس جاری ہے کشمیریوں کا بہتا لہو۔۔
اپنے خون کی ندیاں بہانے کے باوجود بھی آخر کشمیریوں کا دیرینہ خواب اور پرانی خواہش پوری کیوں نہیں ہوتی۔۔۔اس اہم سوال کا جواب رقم کرنے بیٹھیں تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں کیونکہ جتنے منہ اتنے جواب۔۔ کشمیریوں کے پاس ایک دلیل ہے۔۔ پاکستانی دوسرے زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ انڈیا والے اپنی رام کہانی پیش کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر والے کبھی پاکستان تو کبھی وادی والوں کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ گلگت والے بھی کے ٹو سے بلند تحفظات رکھتے ہوئے کبھی کبھار لب کھول لیتے ہیں۔ لیکن آج کماحقہ ہو اس سوال کا مدلل جواب مل گیا۔۔
ماہنامہ کشمیرالیوم کے زیر اہتمام سید علی گیلانی رحم اللہ کی زندگی پر مبنی دستاویزی فلم کے حوالے سے تقریب ہوئی جس میں شرکاء نے مرحوم قائد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے عزم کو دہرایا۔ ماہنامہ کے چیف ایڈیٹر اور ڈاکیومینٹری کے ڈائریکٹر شیخ محمدامین نے دستاویزی فلم کے اغراض و مقاصد بتائے۔ انہوں نے کہا مزاحمت اور کمٹمنٹ کی علامت سید علی شاہ گیلانی عظیم انسان اور عظیم قائد تھے۔ایسے لوگوں کے بارے میں ہی کہا گیا ہے ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔انہوں نے مرحوم کو مرد لازوال کا بھی خطاب دیا۔
اپنی آوازسے ڈا کیو مینٹری میں جان ڈالنے والے سینئر صحافی ظفر محمود شیخ نے بھی مرد قلندر علی گیلانیؒ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اور اس تشنہ طلب سوال کا جواب بھی دیا کہ آخر کشمیر آج تک آزاد کیوں نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اللہ تعالی کشمیریوں کو بڑی آزمائش سے آزما رہا ہے۔ ظلم و جبر کی بھٹی سے اس لیے گزار رہا ہے تاکہ یہ قوم بھٹی میں جل کر کندن بن پائے۔۔ظفر شیخ نے پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔۔ آپ دیکھیں کہ پاکستان بھٹی سے نہیں گزرا، اسی وجہ سے آج بھی یہاں سوائے گھومنے پھرنے کی اور کوئی آزادی نہیں۔۔سینئر صحافی کی اس دلیل میں دم ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ آزادی بڑی نعمت ہے اور اس کو پانے کیلئے بڑی قربانی دینا پڑتی ہے۔ جو قومیں قربانیاں دیکر آزادی حاصل کرتے ہیں وہ اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔ پلیٹ میں ملنے والی آزادی بھی مختصر ہی ہوتی ہے۔
تقریب میں آزادکشمیر کے سینئر صحافی راجہ کفیل نے کشمیرکی موجودہ صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں جدوجہد کے ساتھ اپنا ہدف بھی سیٹ کرنا ہوگا۔۔ تین خطوں پر بٹے ہوئے کشمیر میں الگ الگ نعرے لگ رہے ہیں، کوئی الحاق کا نعرہ لگا رہے ہیں کوئی خودمختار کشمیر کا خواہاں ہے۔ ایسے میں جدوجہد تو
چلتی رہے گی لیکن اس کی کامیابی کے چانسز کم ہے لہٰذا ہماری قیادت کو پہلے اپنی ڈائریکشن طے کرنا ہوگی۔
تقریب میں کشمیر جرنلسٹ فورم کے صدر نعیم الاسد، کشمیر پریس فاؤنڈیشن کے رکن شہزاد خان،سینئر صحافی واینکر مہتاب عزیز اور پی ٹی وی کے پرڈیوسر لطیف ڈار اور دیگر نے بھی شرکت کی۔ شرکا نے کشمیرالیوم کے چیف ایڈیٹر کو مرحوم سید علی گیلانی کی زندگی پر بہترین دستاویزی فلم بنانے پر خوب داد دیتے ہوئے دستاویز کا پارٹ ٹو بنانے کی بھی درخواست کی۔
٭٭٭