امت مسلمہ کے زخم اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بازگشت

محمد احسان مہر

مہذب دنیا کے نام نہاد دعوئوں،جھوٹی اناء اور انسانیت کے مصنوعی احساسات کا نام لے کر صہیونی اور استعماری طاقتیں دنیا میں جو گل کھلا رہی ہیں یوکرین کے بعد مشرق وسطیٰ میں بھی اس کی تصویر ابھر رہی ہے،سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بازگشت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک (حماس) کے ملٹری ونگ، القسام بریگیڈ کے لیڈر نے اسرائیل کے خلاف کاروائی کا اعلان کر دیا ، اسرائیل کی 7دہائیوں سے مسلسل اشتعال انگیزیوں ،عالمی برادری کی خاموشی اورعالم اسلام کی اجتماعی بے حسی سے مایوس، 16برسوں سے اسرائیل کے محاصرے میں نسل کشی کا سامنا کرنے والے محصور اور مظلوم فلسطینی، ظالم اسرائیل کے خلاف اْٹھ کھڑے ہوئے ،اور7اکتوبر کے دن صرف 20منٹ کے قلیل وقت میں ہزاروں راکٹ اسرائیل کی غیر قانونی یہودی بستیوں کی طرف فائر کئے،حماس کے درجنوں مجاہدین نے جنگی تاریخ میں پہلی بار پیرا گلائیڈرز کے ذریعے منفرد طریقے سے فضاء سے ہی دشمن کو نشانہ بنایا، غزہ کی پٹی پر لگی باڑ کو 28 سال بعد اکھاڑ دیا گیااور سینکڑوں فلسطینی نوجوان غیر قانونی یہودی بستیوں میں داخل ہو گئے۔
حماس کی طرف سے( آپریشن طوفان ا لالقصٰی)نے چہروں کے پیچھے چھپے کئی کرداروں کو ساری دنیا کے سامنے ننگا کر دیا کہ وہ کس طرح ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست (جس کا دارالحکومت القدس ہو) کے قیام سے قبل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ فلسطینی مسلمان 1948سے اسرائیلی یہودیوں کی شر انگیزیوں ،ظلم اور نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں،کشمیری عوام کی طرح فلسطین کے مسلمانوں پر بھی ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی،مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی اقوام متحدہ کے سرد خانوں میں پڑ ا’’ صلا ح الدین ایوبی’’کے کسی فرزند کی راہ دیکھ رہا ہے،لیکن افسوس۔۔۔۔اقتدار کی خواہش اور ذاتی مفادات کا حصول آج کے مسلمانوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،حماس کااسرائیل پر یہ اچانک حملہ ایسے وقت ہوا جب خطے کے ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، ،افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب ،سالانہ تقریبا 2ارب ڈالرکی فلسطینی امدادروک کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔ فلسطینی مسلمان پہلے ہی اسرائیل کے حملوںاور عرب ممالک کے باہمی انتشار کی وجہ سے ایک بڑے علاقے سے ہاتھ دھوکر ایک محدود سی (غزہ کی پٹی)میںمحصور ہیں وہ عرب ممالک کے کسی ملک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے اقدام کا تصور بھی نہیں کر سکتے ،لیکن عالم اسلام کی خاموشی اور عرب دنیا کی بے حسی نے انہیں (طوفان الاقصٰی) جیسا فدائی آپریشن شروع کرنے پر مجبور کیا،جنوبی ایشیا میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے مایوس کن کردار کی وجہ سے مستقبل میں قابض بھارتی افواج کو بھی اس طرح کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسرائیل سے تعلق کی خواہش نے عالم اسلام کے حکمرانوں کو مسلم اْمہ کے زخموں سے غافل کردیااور وہ تمام تر وسائل اور قوت وشوکت کے ہوتے ہوئے(قبلہ اول)مسجداقصیٰ کو کفر کے نرغے میں چھوڑ کر دنیا (تجارت) کی طرف راغب ہو گئے،اگرفلسطین جیسے حساس مسئلے کی خاطر او آئی سی کوئی عملی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے ،اور صرف ( مذمتی بیانات) تک ہی محدود رہنا ہے تو اس کے قیام کے مقاصد کیا ہیں ؟ یہ (فریضہ)تو ویسے بھی نبھایا جا سکتاہے،اور34اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد جو(عام الناس)کو مطمئن کرنے کے لیے بنایا گیا تھا حالیہ صورت میں اس کا کیا کردار ہے ؟حکمرانوں کی ان دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے اسلامی ممالک میں سول نافرمانی کی تحریکیں بھی جنم لے سکتی ہیں،ایسی صورت میں کس کوذمہ دار ٹھہرا یا جائے گا ؟

حماس اسرائیل جھڑپوں کے دوران جہاں مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کی ضرورت پر ذور دینے کی ضرورت تھی تاکہ دو ریاستی کا حل ممکن بنایا جا سکے،امریکہ ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو گیا ،امریکہ کا اسطرح کھلے عام ظالم صہیونی ریاست کاساتھ دینامشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کا طبل بجانے کے مترادف ہے ،بحرحال حماس نے عالمی برادری اور اسلامی دنیا کی آزاد ریاستوں کے غلام حکمرانوں کوبڑا واضح اور دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ (قبلہ اول) فلسطین کی مکمل آزادی تک اسرئیل سے تعلق کی خواہش جہاد سے منہ موڑنے والے سینوں میں ہی مچل سکتی ہے جنوبی ایشیاء میںکشمیر اور مشرق وسطیٰ میں فلسطین کا مسئلہ خطرناک انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے،یہ دونوں تنازعات دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سطح پر اْمت مسلمہ کو کنڑول کرنے کے لیے برطانیہ کے گھنائونے کردار کی وجہ سے آج بھی موجود ہیں،اور اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی 1948 سے اس کے ایجنڈے پر بھی موجود ہیں،اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بنیادی مقاصد کا بھرم رکھنے کے لیے اگر سنجیدہ کردار ادا نہ کیا تو دنیا تیسری عالمی جنگ کی لپیٹ میں بھی آسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے جنرل اسمبلی کے78ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسی جانب اشارہ کیا تھا ،عالمی مالیاتی اورگورننس کے نظام کے متعلق انہوں نے کہا کہ عالمی تنازعات کے باعث دنیا بہت بڑے خطرے کی طرف بڑھ رہی ہے،عالمی اداروں کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہاکہ عالمی ادارے تنازعات حل کرنے کے بجائے خود مسئلے کا حصہ بن جاتے ہیں،اس لیے اب دنیا کو باتوں کی نہیں ایکشن کی ضرورت ہے۔ انتونیو گوتریس جس طرح عالمی منظر نامے کی ہولناکیوں کی منظر کشی کر رہے تھے ، کاش اسی احساس کے ساتھ وہ عالمی برادری کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جگانے کی کوشش کریں ،تاکہ کشمیر و فلسطین سمیت دنیا بھر میں مظلوم انسانیت کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے ،یقینی طور پر ظالم کا ہاتھ روکنے میں ہی انسانی بقاء کا راز مضمر ہے،یہ بات طے ہے کہ مسائل جنگ سے حل نہیں ہوتے، لیکن اخلاقیات سے عاری قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے ،اور اس کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت بحرحال موجود رہتی ہے،۔

٭٭٭