امن کے نام پر دھوکہ

چیف ایڈیٹر کے قلم سے

14 اگست1947پاکستان کے نام پر ایک ملک معرض وجود میں آیا۔ 15اگست بھارت آزاد ہوا ۔لیکن ایک ریاست جو ریاست جموں و کشمیرکے نام سے موسوم تھی ،وہ کشمیری عوام کی رائے کا احترام کیے بغیر دو حصوں میں بٹ گئی۔ایک حصے کانام آزاد جموں و کشمیر پڑگیا دوسرے حصے پر بھارت نے قبضہ کرکے وہاں اپنا ترنگا جھنڈا لہرایا۔اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل نے پورے خطے کو متناز عہ قرار دیا۔جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47 (1948) اور اس کے بعد کی قراردادوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ۔ ان قراردادوں میں جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ۔ابتدا میں دونوں ممالک نے ان قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کا وعدہ کیا تاہم بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرونے ریاست میں مکمل امن قائم ہونے کے بعد کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کا وعدہ کیا۔2نومبر 1947ء میں آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والی تقریرمیں اس وعدے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ــ”ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ حتمی طور پر کشمیری عوام ہی کریں گے۔ ہم نہ صرف جموں اور کشمیر کے عوام بلکہ تمام دنیا سے یہ وعدہ کرچکے ہیں اور مہاراجا نےبھی اس کی حمایت کی ہے۔ ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ ہٹیں گے۔ جب امن و امان بحال ہوجائےگا تو ہم عالمی نگرانی میں، جیسے اقوام متحدہ، ریفرنڈم کرانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ عوام کی جانب سے شفاف اور منصفانہ ریفرنس ہو اور ہمیں ان کا فیصلہ قبول ہوگا۔‘‘ نہرو نے وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان کے نام بھی ایک تار میں ان الفاظ میں اسے یقین دلانے کی کوشش کی ۔”مَیں آپ کو یقین دِلاتا ہوں کہ کشمیر کے الحاق کے حوالے سے عوام کی رائے اور منظوری حاصل کی جائے گی۔ بھارتی حکومت اپنا کوئی فیصلہ مسلط نہیں کرنا چاہتی اور اس سلسلے میں عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا“۔نہرو کی کابینہ میں شامل برصغیر کے ممتاز دانشور اور عالم مولانا بو الکلام آزاد جو نہرو کی کا بینہ میں وزیر تعلیم کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے نے1951ء میں ایران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نہرو حکومت کی طرف سے اس وعدے کی تکمیل کی ان الفاط میں یہ یقین دہانی کروائی کہ ”ہر حال میں کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا اور یہ فیصلہ کشمیری عوام ہی کریں گے کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں“ ۔۔۔۔مگر آج 2024 اب رخصت ہوچکا ہے ، سال2025 کا پہلا مہینہ شروع ہوچکا ہے ،لیکن ریاست جموں وکشمیر اسی حالت میں ہے جہاں 1947کے آخری دنوں میں تھی۔کشمیری عوام کی رائے کا احترام نہ تب کیا گیا نہ آج اس رائے کو کوئی اہمیت دی جارہی ہے ۔کشمیری عوام اپنی رائے منوانے کیلئےجدوجہد میں مصروف عمل ہے ۔اس جدوجہد میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ہزاروں عصمتیں تار تار ہوئی ہیں ۔اربوں کھربوں کی جائیدادیں تلف ہوچکی ہیں ۔کھیت و کھلیاں تخت وتاراج ہوچکے ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود عالمی فیصلہ ساز محض تماشائی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ،اپنی اعتباریت عملاََ کھوچکے ہیں ۔2025میں بھی بظاہر یہ نہیں لگ رہا کہ حالات میں کوئی بڑی تبدیلی آئیگی لیکن ایک حقیقت واضح طور پر سامنے آرہی ہے کہ پر امن ذرایع سے ظالم و جابر قوتوں سے نجات حاصل کرنے کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔نہرو نے امن کی شرط رکھی تو امن جونہی قائم ہوا تو اس نے اپنا قبضہ مستحکم کیا اورایسا کرنے کے بعد کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔2004۔میں بھارتی قیادت نے امن کی شرط رکھ کر مرحوم پرویز مشرف سے با مقصد مذاکرات کرنے اور کشمیری عوام کی رائے کو اہمیت دینے کی حامی بھری ۔خونی لکیر پر امن قائم کرنے کی آڑ میں آہنی بھاڑ لگائی گئی ۔بندوق کی گھن گرج دھیمی پڑگئی ۔نام نہاد امن کی فضاء قائم ہوئی تو نہ مذاکرات کی میز سجی اور نہ ہی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف کوئی قدم اٹھا۔بلکہ بھارتی آئین میں جو کچھ سہولیات کشمیری عوام کیلئے رکھی گئی تھیں وہ بھی ختم کردی گئیں ۔غلامی کی زنجیروں کو مزید کسا گیا اور یہ سب امن کے نام پر ہوا۔قبرستان کی خموشی والا امن۔۔ امن نہیں ۔۔بلکہ موت کی خموشی والی کہانی کا منظر نامہ ہوتا ہے ۔اللہ رحم فرمائے