شہزاد منیر احمد
انسانی زندگی کی پر اسراریت کا یہ ثبوت و دلیل کافی نہیں کہ انسان ، خود اس سچائی کی جامعیت سے آگاہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے،( انسان یا ابن انسان)دنیا میں اس کا مقام کیا ہے،خود خلیفہ ہے یا پسر خلیفتہ اللہ) ۔ اس زندگی کا انجام تو روز محشر ہے ۔ یہ محشر کب ہوگا یہ نہیں معلوم ۔ ہاں ، البتہ روز محشر کیسا ہوگا ، اس کا مختصر خاکہ ام لکتاب میں اللہ خالق کائنات ، مالک یوم الدین نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت انسان کی زمینی زندگی کی مفصل تصویر کی نمائش اور RUNNING COMMENTARY ہوگی۔ ساتھ میں ہر فرد کی کار کردگی کی اسناد تقسیم ہوگی ، جس کے بعد سب لوگ اپنی ہمیشہ کی زندگی کے ٹھکانوں اور محلوں میں منتقل ہو جائیں گے ۔
انسان کی پیدائش کا تو خالق حیات ، نو مولود کی آمد کا اس کے والدین کو بتا دیتا ہے لیکن اس کی واپس رخصتی ( موت) سے ہر کوئی لاعلم ہوتا ہے۔ انسانی زندگی تین مراحل پر مشتمل ہے، پہلا زمانہ عدم کی زندگی ، دوسرا زمین پر زندگی اور تیسرا ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ۔ تینوں مراحل اللّٰہ وحدہ لاشریک کے جامع اور مضبوط رضا کے تابع ہیں۔ ہر زندگی کا دورانیہ اور مقاصد اور پیمانے اللّٰہ نے طے اور مقرر کر رکھےہیں۔ وہی انسان خوش ،پر امن اور فلاح پانے والاہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع جیتا ہے۔ خود سری اور سرکشی کرنے والے ناکام و بے مراد جی کر اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے قدیم متجسسین اور محقیقین کا کہنا ہے کہ متنازعہ انسانی معاشرت کا سراغ ہابیل اور قابیل کے اختلاف سے شروع ہوا۔ معلوم یہ ہوا کہ جہاں دو افراد مشترکہ رہائش اختیار کریں وہیں معاشرت قائم ہو تی اور معاشرتی مسائل کا بیج بھی پھوٹ اٹھتا ہے۔یہ امر بھی افشا ہوتا ہے کہ’’ معاشرت بحثیت خود ایک پر اسرار و پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی حکمت صرف اللہ علیم و خبیر جانتا ہے۔ ہمیں یہ علم بھی حاصل ہوتا ہے کہ ایک ہی ماحول ،ایک ہی نسبت ایک جیسے شب وروز میں رہنے کے باوجود انسانی ذہن کے اندر بہتے خون کی پیچیدہ آنتوں میں خواب و خیال عزم و آرزوؤں کے دھارے الگ الگ بہتے ہیں۔ انہیں ادبی زبان میں اختلاف رائے کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل ہونے سے متنازعہ معاشرت سامنے آئی‘‘ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔یہاں رک کر ،۔۔۔۔۔ ہمارے لیے اس پہلو پر تحقیق کرنا ہت ضروری ہے کہ کیا اس انتہا تک آدمی اپنی ذات کی محبت میں پہنچتا ہے یا دوسرے آدمی سے نفرت رکھنے کی وجہ سے۔ ؟ ۔ کیوںکہ کائینات میں یہ اختلاف رائے ہی انسانی معاشرے میں فسادات و قتل و غارتگری اور ریاستوں کی تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔
ہابیل اور قابیل کا تذکرہ بغیر ان کا نام لیے ، سورت المائدہ کی آیت نمبر 27 میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کیا گیا ہے ۔ جب کہ کتاب مقدس میں ان کے ذکر ملتا ہے۔ ؟.( کتاب مقدس بائبل کو کہتے ہیں۔1۔اس کے دو حصے ہیں۔ عہد نامہ قدیم اور2 ۔عہد نامہ جدید ). دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں عہد نامے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا سے اٹھا لئے جانے کے تین سو سال بعد لکھے گئے۔ زندگی کے شب و روز کاٹتے ، اتار چڑھاؤ سے گزرتے اور حریفوں اور حلیفوں سے نمٹتے ہوئے راقم اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانی زندگی کی سارے فیصلوں میں ’’ انتظار‘‘ بہترین فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اللّٰہ کو اپنے بندوں کا سب سے ناپسندیدہ عمل اس کا ’’ جلد باز‘‘ ہونا ہے، جس سے ابھرنے والے نقصانات سے صرف انتظار محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ انسان بد بخت اتنا پھسڈی اور نا ہنجار ہے کہ بلا سوچے سمجھے ، اللہ کی رضا کے برعکس اپنی خواہشات کی تکمیل کرنے میں بڑا مشتاق و متحرک رہتا ہے۔ زندگی کا کوئی مرحلہ ہو،عمر ہو یا شعبہ حرکیات ، انسان کہیں فطری اصولوں (جو اللّٰہ الرحمٰن کے وضع کردہ ہیں) کی حدوں میں بند ہے اور کہیں معاشرتی ضابطوں ( جو ریاست میں حکومت نے تشکیل دے رکھے ہیں ) کا پابند ہے۔ علامہ اقبال نے کیا حقیقت بھرا شعر لکھا ہے
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
جب پابندی ہی زندگی کا مرکزی کردار طے ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں تو پھر اس پر ناک بھنویں چڑھانا ، منہ بسورنا، نفرتیں پالنا مناسب نہیں ۔ غلطی کا اعتراف اور اپنے رویے کی اصلاح لازم و واجب ٹھہرتی ہے۔ اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر گرفت تو ہو گی۔
زندگی صرف محبت ہی نہیں، کچھ اور بھی ہے
زلف و رخسار کی جنت ہی نہیں ، کچھ اور بھی ہے

سیاست کیا ہے
منظم لوگوں کا گروہ ( سوسائٹی) ریاست میں ایک خوشگوار احسان’’ برکت ‘‘ ہوتا ہے ۔ البتہ حکومت بھلے کتنی ہی چھان پھٹک ، احتیاط و انصاف سے منتخب کی جائے ، وہ ایک لازم برائی ثابت ہوتی ہے۔ اور بری حکومت میں ریاستی عوام کو ویسی ہی مشکلات ،دشواریاں، بیہودگی اور ذلتوں کا سامنا ہوتا ہے، جیسا کسی آمرانہ نظام میں یا محکومیت میں کرتے ہیں۔تھامس پین، وہ سیاسی فلسفی جس نے 1776 تا 1783 کے دوران اپنی شہرت کمائی اور برقرار رکھی۔ اُس نے اپنے مشہور پمفلٹ Common Sense اور American Crisis کے ذریعے انسانی حقوق کی نشاندہی کی۔اس کا موقف ہے کہ معاشرہ اپنی حالت میں ایک نعمت ہے، لیکن حکومت even in its best form ایک ضروری بُرائی ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں سیاست پر۔ کہ سیاسی معاشرہ کس طرح بنتا اور بڑھتا ہے۔ انسانی معاشرہ قائم کرنا، پھر اس معاشرے کی ایک جامع نگرانی کرنا کہ معاشرتی فضا پرامن پر سکون پر مسرت محسوس ہو۔ یہ مقصد لوگوں میں سے ایک حکومتی گروپ منتخب کر کے باقاعدہ تشکیل دے کر حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جنہوں نے ایک خود مختار ریاست قائم کی ہوتی ہے۔ ( آبادی ،علاقہ خود مختاری، حکومت) ۔ جہاں عوام کے نمائندے عوام کےلئے یہ خدمات انجام دیتے اور تنظیم کے مقاصد حاصل کرتے ہیں، ایسے معاشرے کو سیاسی فلاسفرز انگریزی زبان میں UTOPIA کہتے ہیں ، یعنی ہر چیز IDEAL PERFECTION. نظریاتی اور بہترین ہو۔
شاعر ندا فاضلی نے ایک گانے میں اسے یوں بیان کیا ہے:-
یہ آسمان یہ بادل یہ راستے یہ ہوا
ہر ایک چیز ہے اپنی جگہ ٹھکانے پہ
کئی دنوں سے شکائیت نہیں زمانے سے
دنیا بھر کے ممالک اپنی اپنی ریاست کا آئین تشکیل دیتے ہیں، جو ان کے تہذیبی ارتقاء اور تمدن سے میل کھاتے عوامی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ اور وہ اسے IDEAL CONSTITUTION کہتے ہیں۔ ہر ریاستی دستور اپنی اپنی نوعیت میں منفرد ہوتا ہے، کہیں لکھا ہوا ، کہیں محض وعدہ کی شکل میں۔لیکن ایک بات ، ایک شق سب دساتیر میں لازمی رکھی جاتی ہے، اور وہ ہے ’’انسانی حقوق ‘‘ جسے بڑے فخر سے HUMAN BASIC RIGHTS کہہ کر زیادہ دلفریب بنایا جاتا ہے۔ کیونکہ ، دساتیر ہوں یا دیگر قوانین و ضوابط ، اگر ان سے انسانیت خارج کر دی جائے تو پیچھے آئین ایسا ہی فضول دکھائی دے گا ، جیسے اعلیٰ محل کے باہر خوبصورت مگر خالی پنجرہ لٹکا ہوا ۔ ، جس میں بٹیر ہو نہ مینا نہ کالاتیتر ۔ کسی بھی ریاست کا سب سے بڑا، اہم اور متبرک اثاثہ اس کے عوام ہوتے ہیں۔ عوام ہی حکومت تشکیل دیتے ہیں وہی آئین بناتے ہیں اور وہی پارلیمان منتخب کرتے ہیں اور وہی عدالتیں قائم کرتے ہیں۔لیکن حکومتیں سب سے زیادہ توہین بھی اسی اثاثے کی، ان کے حقوق کی پامالی کر کے کرتے ہیں۔تجربہ یہ ہے کہ حکومتی ، ناہلی، بد اعمالیوں ، عوامی پریشانیوں پر بے حسی دکھانے کے خلاف میڈیا پر خواہ کتنا ہی پروپیگنڈا کیا جائے وہ غیر موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ حکومت کے لیے درد سر اور پریشان کرنے والاوڈ ہ نعرہ ہوتا ہے جو چند لوگ سڑک پر نکل کر لگاتے ہیں۔ الحمدللہ! یہ متبرک و مقدس فخر صرف اور صرف آئین فطرت کو حاصل ہے کہ وہ UTOPIAN یعنی نظریاتی دستور ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے انسانوں کے خالق و مالک اللہ رب العالمین نے تخلیق کیا ہے جو انسان کی جامع فلاح و بہبود اور انسانیت کے پھلنے پھولنے اسے فروغ دینے کی محفوظ و مضبوط ضمانت دیتا ہے۔جیسا کہ علامہ اقبال ،واقف اسرار و حکمت نے اپنی منفرد شاعری اور طرز تحریر میں بیان کیا ہے
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی چنگیزی


تحریک خودارادیت کشمیر
ریاست جموں و کشمیر( جنت نظیر وادی ) کے باشندوں نے 14 اگست 1947 میں صدیوں کی غلامی اور محکومی سے طویل عرصہ کی کوششوں اور بے شمار قربانیوں سے آزادی کا سورج چمکتا دیکھا تو ان کی خوشیوں کا عالم دیدنی تھا ۔ ظاہر ہے آزادی کی نعمت انسان کے لئے دنیا کی ساری نعمتوں سے افضل ثابت ہے۔ ابھی کشمیریوں کی خوشیوں کا رومانس مہکا اور چہکا بھی نہ تھا کہ 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی فوجوں کو ریاست جموں و کشمیر میں سرینگر ایئرپورٹ پر اتار کر ریاست پر غاصبانہ قبضہ کروا دیا ۔ یہ وہ ’’یوم سیاہ‘‘ تھا جس دن جموں وکشمیر کے عوام نے اپنی آزادی کے تحفظ کی خاطر تحریک خودارادیت کا آغاز کیا تھا۔ کشمیریوں نے اپنی اس تحریک خودارادیت میں ہر جگہ ، ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں۔ہندوستانی پولیس اور سیکیورٹی فورسز کا تشدد ، ظلم وستم ، غیر قانونی گرفتاریاں ، گھروں پہ چھاپے ، نہتے عوام پر گولیاں چلانا ، عورتوں کی بیحرمتی سب جھیلا ، لیکن ابھی تک (77 ) سالوں سے ان کو ان کا بنیادی حق نہیں دیا جا رہا ۔کشمیریوں کی تحریک آزادی خودارادیت کو سبوتاژ کرنے والوں میں اسلام دشمن قوتوں اور طاقتور ممالک کے علاؤہ اندرونی بیرونی مکار کردار سب شامل ہیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ کشمیری عوام کی سیاسی قیادت آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ون پوائنٹ ایجنڈا ’’ آزادی خودارادیت‘‘ پر جامع غور و خوض کے بعد موثر لائحہ عمل کا آغاز کریں۔ ریاست کے ضمنی یا اضافی مسائل کو فی الحال التوا میں رکھ کر آگے بڑھیں ۔ چونکہ آزادی خودارادیت کا اعلان اغیار کے قبضہ میں ہے جبکہ ریاست کی ترقی کے فیصلے کشمیریوں نے خود کرنے ہیں۔ یاد رکھنا، اخلاقیات معاشرے کی حفاظت فرماتی ہے، آئین ، قوانینِ و ضابطے ریاست کو محفوظ بنتے ہیں اور عقیدہ روح کو پاکیزگی بخشتا ہے۔
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ )اسلام آباد کے معروف ادیب ،شاعر اور کالم نگار ہیں






