انصاف

عروج آزاد

انصاف ایک ایسا لفظ ہے جو زیادہ تر مظلوموں کی زبانوں پر رہتا ہے۔ہر مظلوم انسان کی زبان پر انصاف کی پکار ہے لیکن اس کی پکار کی آواز کوئی بھی نہیں سنتا اور آج کے دور میں تو انصاف ملنا بہت ہی زیادہ مشکل ہوا جا رہا ہے۔ عام طور پر انصاف ملنے کی جگہ عدالت کو کہا جاتا ہے۔قانون سازی کے انتظام میں عدالتوں کو ہی یہ حق ہے کی وہ انصاف اور ناانصافی کے بیچ انصاف کے حق میں فیصلہ کریں۔

عدالتوں میں بڑی تعداد میں آنے والے معاملوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ انصاف کی تلاش میں آنے والے لوگوں کی بھیڑ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔چونکہ انصاف کا قانونی ماخذ عدالت ہے اس لیے انصاف کی خواہش کرنے والوں کی بھیڑ یہاں عدالت میں آکر اکٹھا ہو جاتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا انصاف صرف عدالتوں تک ہی محدود رہ گیا ہے؟ کیا معاشرے میں اور دوسری جگہوں پر انصاف دینے کے انتظامات اور ضرورت نہیں ہے؟ ضرورت بھی ہے انتظامات بھی ہیں۔سب سے پہلے انسان کو قانونی انتظامات کو سمجھنا چاہیے۔

آج کے دور میں ظلم بڑھتے جا رہے ہیں اور انصاف نہیں مل پا رہا ہے۔سچ سے زیادہ معاملہ عصمت دری کا سامنے آرہا ہے اور انصاف مانگنے والوں کی کوئی سنوائی نہیں ہے۔گنہگار کھلے عام گھومتے ہیں انہیں کوئی سزا نہیں ملتی اور مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا۔

آج وہ نکہت آسودہ لٹا دی ہم نے
عقل جس قصر میں انصاف کیا کرتی ہے
آج اس قصر کی زنجیر ہلا دی ہم نے

یہ 500 قبل مسیح کی بات ہے کہ جس میں ایک بدعنوان جج کے زندہ ہوتے ہوئے اس کی کھال اتاری گی۔اس جج کا نام سیسمنس تھا۔ یہ فارس میں بادشاہ کمبیسیس کے وقت بدعنوان شاہی جج تھا۔معلوم ہوا ہے کہ اس نے عدالت میں رشوت لی اور غیر منصفانہ فیصلہ دیا۔اس کے نتیجے میں بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے اس کو بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا جائے اور اسکی زندہ کھال اتارنے کا حکم دیا۔فیصلہ سنانے سے پہلے بادشاہ نے سیسمنس سے پوچھا کہ وہ کسے اپنا جانشین نامزد کرنا چاہتا ہے۔سیسمنیس نے اس کے لالچ میں،اپنے بیٹے، Otanes کو منتخب کیا۔بادشاہ نے رضا مندی ظاہر کی اور جج سیسمنس کی جگہ اس کے بیٹے اوتانیس کو مقرر کیا۔

اس کے بعد اس نے فیصلہ سنایا اور حکم دیا کہ جج سیسمنس کی کھال (جلد) اتاری جائے۔ کھال اتاری گئی اور اس کھال کو جج کے بیٹھنے والی کرسی پہ چڑھا دیا گیا۔اوتانیسOtanes اپنے غوروخوض میں ہمیشہ یہ یاد رکھنے پر مجبور تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے پھانسی پانے والے باپ کی جلد پر بیٹھا رہتا تھا۔اس سے اس کی تمام سماعتوں، غوروفکر اور جملوں میں انصاف اور مساوات کو یقینی بنانے میں مدد ملی۔

اگر ہم اس تاریخی واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ملک کے عدالتی نظام کو دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

ہمارا عدالتی نظام انتہائی کرپٹ اور غیر موثر ہے۔لاکھوں کی تعداد میں مقدمے التواء کا شکار ہیں۔حیرت کی بات تو ہے کہ جہاں لاکھوں کروڑوں مقدمے عدالتوں میں پڑے ہیں وہاں سیل فون پر messages کیے جاتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی بھی قسم کی کسی ادارے سے شکایت ہے ہے تو آپ ادارے کا نام لکھ کر میسج کریں تو آپ کو 60 دن میں انصاف دلایا جائے گا۔ذرا غور طلب بات ہے۔25,25 سال ایک مقدمے کو لگ جاتے ہیں جبکہ یہی عدالتیں اشرافیہ کی خدمت کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔

یہ وہ کاغذ ہیں جن پر محبت، وفاداریاں،دوستیاں،بھائی چارہ،انصاف،رشتے،اعتماد،بھروسے اور دنیا کا سب کچھ بکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشرہ اور انکا عدالتی نظام ہم سے کئی درجے بہتر ہے اور یہاں ہمارے عدالتی نظام پر ہر طرح انگلی اٹھائی جاتی ہے۔بہرحال جس معاشرے میں کرپشن سے پاک انصاف فراہم کیا جاتا ہے وہاں ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں پہلے خود کو درست معنوں میں سیدھے رستے پر لے کر آنا ہے۔ہمیں اپنا عدالتی نظام اور پھر ہمی نچلی سطح سے لے کر آخری حد تک انصاف کے لیے راہ ہموار کرنی ہے۔ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہے اور مظلوم کا ساتھ دینا ہے چاہے ظالم ہمارا کوئی اپنا باپ،بیٹا،یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ ایک طرف ملک میں ظلم کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف سے انصاف کرنے والوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو دیکھتے دیکھتے انصاف کا بالکل نام ونشان مٹ جائے گا اور ہر طرف صرف ظلمت ہی ظلمت ہو گی۔ اس لیے ہم سب کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی اور کوئی بھی انسان جو انصاف کی بہار لگائے اس کا ساتھ دینا ہو گا۔ کیونکہ جب ہم سب ایک ساتھ مل کر انصاف مانگیں گے تبھی جا کر لوگوں کوشنوائی ہو گی اور جب ہم آج کسی اور کے لیے کھڑے ہوں گے تو وہی لوگ کل ہمیں انصاف دلانے کے لیے کھڑے ہونگے۔ ایک رہنے میں ہی سب کی جیت ہو گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے حالات کو درست فرمائے اور ہمیں انصاف کرنے کی توفیق دے اور شیطانی قوتوں سے بچائے آمین یارب العالمین