

ہندو فاشسٹ تنظیم بھارت کو چلا رہی ہے۔خام خیالی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل ہوگا۔۔۔
صرف جہاد ہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے لیکن جہاد کا باقاعدہ اعلان ریاست کرے۔گوریلا وار نہیں بلکہ اعلانیہ جنگ
پوری زندگی میں سید علی گیلانی نے اللہ اور رسول ﷺ کے علاوہ کسی کے ساتھ اگر عشق کیا ہے تو وہ سید مودودیؒ ہیں

انجینئر محمد علی مرزادامت بر کاتہم 1977میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سرکاری محکمہ میں بحیثیت انجینئر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آن لائن دینی موضوعات پر درس دیتے ہیں۔ یوٹیوب پر کافی مقبول ہیں۔اللہ تعلی نے انہیں علم کے ساتھ ساتھ حلم و تدبر سے بھی نوازا ہے۔کھل کے اور کھول کے بات کرنے کے عادی اور پوری دلیل کے ساتھ اپنی بات سمجھا نے میں کافی حد تک کا میاب ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ علماء کے اختلاف کی گنجائش موجود ہے تاہم اختلاف کو ٹکراو اور ٹکراو کو ارتداد کی حد تک لیجانا انتہائی تکلیف دہ معاملہ ہے۔ انجینئر محمد علی مرزادامت بر کاتہم جیسے علماء کی ہمارے درمیان موجودگی کسی انعام سے کم نہیں۔پوری دنیا میں اردو،ہندی اور پنجابی زبان جاننے والے لاکھوں لوگ انہیں سنتے ہیں اور انہیں پسند بھی کرتے ہیں۔ہم نے22نومبر 2021 خود ان کی مجلس میں بیٹھنے اور ان سے براہ راست گفتگو کرنیکی سعادت حاصل کی۔سرائے عالمگیر کے معروف استاد،دانشور اور تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ جڑے ہوئے ہمارے ساتھی عارف مجاہد صاحب نے اس سلسلے میں ان سے پہلے با لمشافہ گفتگو کی اور اس میں 22نومبر 2021 کی تاریخ طے ہوئی۔اس روز ہم11بجے سے 2.30تک ان کے درس و تدریس اور سوالات و جوابات کی پر وقار مجلس میں شامل رہے۔اس کے بعد کشمیر الیوم کے قارئین کیلئے ان سے علحیدہ گفتگو ہوئی جس میں انجئینرصاحب نے کھل کے کئی اہم مسائل پر بات کی۔جو نذر قارئین ہے۔
(شیخ محمد امین،اویس بلال،ڈاکٹر بلال)
س :آپ انجیئنر ہیں لیکن آپ نے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ کب شروع کیا؟
ج: دعوت و تبلیغ کا کام تو بچپن سے ہی شروع کیا ہے،بچپن سے ہی اس کام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔میٹرک سے لے کر تقریباانجیئنرنگ یونیورسٹی سے فارغ ہونے تک،اس کے بعد کچھ عرصہ علماء دیوبند کے ساتھ بھی رہا،تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی رہا اور اہل حدیث حضرات کو بھی قریب سے دیکھا۔ 1994 ء میں جب میں ایف ایس سی میں پڑھتا تھا اس وقت سے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا۔ قرآن و سنت کی درس و تدریس کا کام باقاعدہ 2008سے شروع کیا۔اکتوبر 2010 ء میں جدید بنیادوں پر کام کا آغاز ہوا اور نومبر 2021 ء میں گیارہ سال مکمل ہوچکے ہیں۔الحمداللہ

س:اس میدان میں آنے کے بعد آپ کے خاندان برادری اور علماء کا رد عمل کیسا تھا؟
ج:۔فیملی کو شروع میں تھوڑی سی ہچکچاہٹ تھی۔بعد میں معاملات بہتر ہوئے۔ باقی بعض علماء کا جو ردعمل سامنے آرہا تھا یا ہے وہ آپ یوٹیوب پر جاکے دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے غصے میں ہیں۔حد یہ ہے کہ اخلاقی حدود کو بھی کراس کررہے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام الناس کی اکثریت الحمد للہ میری بات کو سمجھ رہے ہیں ۔پڑھے لکھے طبقے تک قران و سنت کی بات پہنچ رہی ہے۔میں مطمئن ہوں۔صحیح بخاری میں واضح طور پر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ:”پہنچادو میری طرف سے خواہ تمہیں ایک آیت ہی آتی ہو۔جتنا آتا ہے وہ لوگوں تک پہنچائیں۔صحیح بخاری میں حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو انسان کی شکل میں شیطان آکے ملا۔لمبی حدیث ہے،اس کا آخر ی حصہ ہے کہ اس نے جاتے وقت یہ بتایا کہ جو شخص رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ لے،صبح تک فرشتہ اس کی حفاظت کرتاہے۔ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہؓ جو انسانی شکل میں تمہارے پاس آیا تھا وہ شیطان تھا لیکن اس نے بات سچی کی ہے۔
تھوڑا اس حقیقت کو اس طرح دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 279 میں آیا ہے کہ سود کھانے والوں سے اللہ اور اس کے رسول ؐ کا اعلان جنگ ہے۔یہ آیت اگر پرائمری سکول کا بچہ بتائے تب بھی یہ سو فیصد درست ہے اور اگر کوئی سند یافتہ مولوی صاحب بتائے تب بھی اس آیت کا معنیٰ و مطلب وہی ہے ۔میں جو کچھ بھی کہتا ہوں دلائل اور حقائق کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ریفرنس کے ساتھ حقائق کی آگاہی دیتا ہوں۔

س:قرآن کو سمجھنے کیلئے کن کن تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے۔
ج:۔ تقریباََ سارے تفاسیر کا الحمد للہ مطالعہ کیا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے ترجمہ قرآن اور تھوڑا بہت حاشیہ لکھا ہے۔مولانا احمد رضا خانؒ نے بھی ترجمہ لکھا ہے کنز الایمان اور اس پر حاشیہ ان کے ایک مرید مفتی نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان پھر ان کے شاگرد مفتی احمد یار خان نے تفسیر نعیمی لکھی ہے۔ترجمے کی حد تک بات کافی ہے۔اس میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔بس ذاتی اقوال لکھنے سے معاملات بگڑ گئے۔مولانا مودودی ؒ کی تفسیرکا کمال یہ ہے کہ انہوں نے جو بحث طلب چیزیں تھیں ان کے اوپر مختلف علماء کی آرا ء لکھی ہیں اس کے بعد انہوں نے ان کی آراء کے بعد بتایا کہ کس کی رائے کتاب و سنت کے قریب ہے۔مولانا مودودی کی تفسیر اور ترجمہ سب سے اعلیٰ ہے۔عربی زبان کے سوزو گداز کو اگر کسی نے اردو زبان میں ٹرانسفر کیا ہے تو وہ مودودی صاحب ؒنے کیا ہے۔انہوں نے جو مقدمہ قرآن لکھا ہے وہ تو ہزاروں تفاسیر کے اوپر بھاری ہے۔دور حاضر میں دنیا میں جہاں کہیں بھی ْقرآن کی آواز اٹھ رہی ہے اس کے پیچھے سید مودودی واضح نظر آئیں گے۔
ڈاکٹر اسرار صاحبؒ جن کا قرآن سمجھانے میں ایک اعلیٰ مقام تھا۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ جن کے والد صاحب سرگودھا میں جماعت کے امیر رہے ہیں ،امین احسن اصلاحی ؒصاحب،نعمان علی خان صاحب جو امریکہ میں اس وقت کام کررہے ہیں سب کے پیچھے سید مودودیؒ نظر آئیں گے۔الحمد للہ میں خود ان سے متاثر ہوں۔۔

س: تفرقہ بازی کس طرح ختم ہوگی؟
اس کا تدارک یہ ہے کہ سب اپنی کتابوں سے دستبردار ہوں۔ مولاناطارق جمیل صاحب فرماتے ہیں کہ اپنا چھوڑو نا اور کسی کو چھیڑو نا،میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنی پڑے گی اور سب کو متفق ہونا پڑے گا۔قرآن و سنت پر متفق ہوں چاہے اپنا ہی ترجمہ پڑھیں۔ترجمے جس کا بھی پڑھیں اس کا معنی یکسان ہوتا ہے۔مثلا بسم اللہ الرحمان کا ترجمہ کوئی شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے لکھے یا پڑھے یا اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں لکھے یا پڑھے۔۔ بے شک الفاط مختلف ہونگے لیکن مفہوم ایک ہی ہے۔ان شا ء اللہ اس طرح ساری تفرقہ بازی ختم ہوگی۔
س:کشمیر جل رہا ہے۔امہ کہاں ہے۔۔۔
امۃ کو چھوڑیں۔ہم کہاں ہیں۔ہم اس مسئلے کے فریق ہیں۔محمد علی جناح ؒ نے کہا یہ ہماری شہہ رگ ہے۔ہم اسے اپنی شہہ رگ کہتے کہتے تھکتے نہیں۔زندہ کیسے ہیں ہم شہہ رگ کے بغیر۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ہم انہیں نافذ کرانے میں ناکام ہورہے ہیں۔ہمارے حکمران بزدلی کی وجہ سے روز روز اپنا Stance تبدیل کررہے ہیں۔ میں اس معاملے میں پاکستان کو ہی مجرم سمجھتا ہوں جہاد کے بغیر اس کا کوئی حل نہیں۔خام خیالی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل ہوگا۔۔ہندو فاشسٹ تنظیم بھارت کو چلا رہی ہے۔ وہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے کیا مانیں گے۔۔۔صرف جہاد ہی اس کا حل ہے لیکن جہاد کا باقاعدہ اعلان ریاست کرے۔گوریلا وار نہیں بلکہ اعلانیہ جنگ۔یہ سید مودودی ؒ نے کہا ہے اور مجھے اسی سوچ اور فکر سے اتفاق ہے۔ ریاستی ادارے اگر تقریبات منانے،جلسے اور جلوس کرنے کی ترغیب دے رہے ہوں اور سمجھ رہے ہوں ہم کشمیر کی آزادی کیلئے کچھ کررہے ہیں،تو حضرت معاف فرمائیے گا ریاستی اداروں کا یہ کام نہیں،ان کا کام ہے فرنٹ پر لیڈ کریں ۔ اب اگر جہاد کا اعلان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو۔۔۔ تو کم سے کم سیاسی اور سفارتی محاذ پر ہی پوری قوت کے ساتھ اس مسئلے کو لے جا ئیں۔۔ لیکن لگتا ہے لیکن ایسا بھی نظر نہیں آرہا۔ اللہ رحم فرمائے۔باقی کشمیریوں کیلئے میرا پیغام یہی ہے کہ پاکستانی عوام کے دل ان کے ساتھ دھڑکتے
ہیں۔آپ ہمارا سٹیٹس بس ایسا ہی سمجھیں،جس طرح اہل بیت کے ساتھ صحابوں،تابعین کے بیٹوں کی محبت و ہمدردی تھی لیکن کربلا میں ان کا ساتھ دینے کوئی نہیں آیا۔حکومتی جبر کا وہ مقابلہ نہ کرسکے۔لیکن دلوں میں ان کی محبت تھی۔اس لئے ان کے مخالفین آج بھی یاد کئے جاتے ہیں۔مسلمان سارے اہل بیت سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔بالکل اسی طرح پاکستانی عوام کی دعائیں،محبتیں ہمدردیاں کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔
حال ہی میں سید مودودیؒ کے سچے عاشق اور تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما اس حال میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے کہ انہیں رات کے اندھیروں میں زبردستی لواحقین سے چھین لیا گیا اور پھر سپرد خاک کیا گیا۔ یعنی ان کی میت تک کو بھی نہ بخشا گیا۔دشمن دین کا یہ سلوک سید کے عظیم ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنماتھے۔جب پرویز مشرف نے کشمیر کے حوالے سے متفقہ موقف سے ہٹ کر بات کرنے کی کوشش کی تو یہ سید ہی تھے جس نے پوری قوت اور دلیل کے ساتھ اس کے چار نکاتی فارمولے کومسترد کیا اور اس طرح ثابت کیا کہ سید رحم اللہ کی محبت پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ ہے اور وہ کسی ادارے کے اکسانے پر نہیں بلکہ خود ایک جائز تحریک کی نمائندگی کررہے ہیں اور کسی کو بھی وہ اس تحریک کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔پوری زندگی اگر انہوں نے اللہ اور رسول ﷺ کے علاوہ کسی کے ساتھ عشق کیا ہے تو وہ سید مودودیؒ ہیں۔ایک سید مودودیؒ سے عقیدت کی وجہ سے انہیں حریت کا ایک جذبہ تھا دوسرا وہ سید تھے،سید ہونے کی وجہ سے حسینی خون ہو تو حسینیت ا نسان کے اندر ویسے ہی آجاتی ہے۔۔جینز((Genes کے اندر۔۔یہ ساری چیزیں ان کے اندر جمع تھیں،جس کی وجہ سے ان کے اندر اتنی دلیری تھی۔اور وہ آخری وقت تک دلیری سے مقابلہ کرتے کرتے،جاں جاں آفریں کے سپرد کرگئے۔
٭٭٭