!!اور جب اللہ نے موسیٰ کی دعا قبول کی

”اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا”تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے طریقے کی ہر گز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔“اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزارلے گئے۔پھر فرعون اور اس کے لشکر ظلم اورزیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے۔حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا ”میں نے مان لیا کہ خدا وند حقیقی اس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔جواب دیا گیا”اب ایمان لاتا ہے!حلانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنے۔اگر چہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔“

ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور نہایت عمدہ وسائل زندگی انہیں عطا کیے۔پھر انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا مگراس وقت جبکہ علم ان کے پاس آچکا تھا۔یقینا تیرا رب قیامت کے روز ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

اب اگر تجھے اس ہدایت کی طرف کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے لہٰذا توشک کرنے والوں میں سے نہ ہو اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے ورنہ تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لاکر نہیں دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں۔ سورہ یونس (آیت نمبر89 تا97)تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اللہ تعالیٰ کی قدرت و طاقت!!!

سعید بن عبدالعزیز ربعیہ بن یزید سے وہ ابو ادریس خولانی سے وہ حضرت ابو ذر جندب بن جنادہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اے میرے بندو!اگر تمہارے پہلے اور پچھلے،انس و جن،سب ایک کھلے میدان میں جمع ہوکر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق عطاکردوں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی ہوگی جتنی کمی سوئی کو سمندر میں ڈال کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے۔ اے میرے بندو!یقینا تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لیے گن کر رکھتا ہوں،پھر تمہیں ان کا پورا بدلہ دیتا ہوں،پس جو بھلائی پائے،وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے علاوہ پائے،وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے۔“ مسلم

فوائد و مسائل:

اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت وطاقت کا بیان ہے اس لیے ہر چیز صرف اسی سے مانگی جائے۔ انسان کے اچھے برے اعمال کا ریکارڑاللہ تعالیٰ کے پاس موجود ہے اور روز قیامت وہ نوشتہ کھل کر انسان کے سامنے آجائے گا،اس لیے کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ کل کو اس کا حساب دینا ہے۔اچھے اعمال کی توفیق اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے جبکہ انسان کے برے اعمال اس کے نفس امارہ کے باعث سرزد ہوتے ہیں،اس لیے برے اعمال کے ارتکاب میں تقدیر کا سہارا لینا ناجائز ہے۔