آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

شیخ مومن

مترجم :محمد جواد

آج کی دنیا میں ہم بتدریج اُن عظیم اصحابِ علم و حکمت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں جو کبھی سچائی، بصیرت اور فہم و شعور کے نگہبان ہوا کرتے تھے۔ ایسے لوگ، جن کی فکر شجر کی بلند شاخوں کی مانند تھی۔ سایہ فگن شاخیں جو محفوظ رکھنے والی اور رہنمائی کرنے والی تھی ۔ اب یہ مردِ قلندر حضرات ہماری زندگیوں سے آہستہ آہستہ رخصت ہوتے جارہے ہیں۔ ہم ایک ایسے لق و دق صحرا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں جہالت کا اندھیرا چھاتا جا رہا ہے، اور اُن درخشاں شخصیات کے رخصت ہونے کے بعد محض ایک دھند سی باقی رہ گئی ہے۔ ایسے ہی لمحوں میں، ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان نابغہ روزگار ہستیوں کی قدر و قیمت کو پہچانیں، جن میں مرحوم پروفیسر خورشید احمد نمایاں ہیں وہ شخصیت جنہوں نے ایک مردہ دل قوم میں علم و شعور کی چنگاری روشن کی اور انہیں فکری الجھنوں اور سماجی بحرانوں کے بھنور سے نکالنے میں رہنمائی عطا کی۔

واقعی، پروفیسر خورشید احمد ایسے زمانے میں ایک مینارۂ نور تھے، جب جہالت کے سائے ہمارے گرد پھیلنے لگے تھے۔ ان کی آواز اُس طبقے کے لیے سکون اور رہنمائی کا ذریعہ تھی جو عقل و دلیل کے ساتھ ایمان کی زبان میں بات سننے کا متلاشی تھا۔پروفیسر خورشید احمد ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب دنیا ایک نازک تبدیلی کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ ان کی پرورش ایک علمی و فکری پس منظر رکھنے والے خاندان میں ہوئی، جہاں اُن کے والد نذیر احمد قریشی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قریبی رفقاء میں سے تھے۔ یہی تعلق اُن کے اندر جستجو، فکری دیانت اور بلند نظری کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بنا۔
پروفیسر صاحب کا مولانا مودودیؒ سے رشتہ محض رسمی نہ تھا بلکہ ان کا فکری ، نظریاتی اور ذاتی عقیدت پر مبنی ایک گہرا تعلق تھا۔ وہ مولانا کے اولین اور نمایاں شاگردوں میں سے تھے جنہوں نے ان کے افکار و نظریات کو خلوص و فہم کے ساتھ اپنایا۔ اُن کی خدمات میں نمایاں کارنامہ ’’تفہیم القرآن‘‘ کا انگریزی ترجمہ اور اس کے عالمی سطح پر تعارف کا فریضہ تھا۔ وہ جماعتِ اسلامی میں مولانا کے قریبی معتمداور رفیق کار رہے۔ مولانا مودودیؒ کی وفات کے بعد انہوں نے ان کے فکری مشن کو نہ صرف علمی محاذ پر زندہ رکھا بلکہ عملی میدان میں بھی اسے نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔

پروفیسر خورشید احمد نے محض علم کو قبول کرنے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ علم کو پرکھنے، چیلنج کرنے اور نئی سرحدوں تک لے جانے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ انہوں نے سیاسی معیشت سے لے کر عالمی استعمار کے خلاف فکری محاذ تک ہر میدان میں جرأت مندانہ انداز میں آواز بلند کی۔ ان کی امریکی سامراجیت پر تنقید محض علمی تجزیہ نہ تھی، بلکہ ایک بیدار ضمیر کی پکار تھی کہ دنیا جاگے اور اس ظلم کے نظام کو پہچانے جو جمہوریت کے پردے میں محکوم اقوام کو نگل رہا ہے۔

ان کا علمی سفر محض درسگاہوں اور مقالہ جات تک محدود نہ تھا۔ اُن کے خیالات ان گلیوں، بازاروں اور تحریکوں میں بھی گونجتے تھے جو عدل، مساوات اور سماجی انقلاب کی متلاشی تھیں۔ وہ علم کو محض ایک ذاتی ترقی کا ذریعہ نہ سمجھتے تھے، بلکہ اسے معاشرے کی اصلاح کا بنیادی وسیلہ مانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایسے تعلیمی نظام کی وکالت کی جو سوال اٹھانے، تنقید کرنے اور عقل و دل کے امتزاج سے دنیا کو دیکھنے کا ہنر سکھائے۔پروفیسر خورشید احمد فقط مفکرنہ تھے،بلکہ مردِ عمل بھی تھے۔ اُن کی عملی خدمات میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) کا قیام ایک سنگِ میل ہے، جو ایک ایسا ادارہ بنا جہاں علمی مباحث، پالیسی اصلاحات اور عالمی سطح کے مسائل پر اسلامی تناظر میں بات کی گئی۔ یہ ادارہ آج بھی ان کی فکری بصیرت کا امین ہے۔ان کی تمام خدمات کے باوجود، جو چیز اُنہیں عظمت کی معراج تک لے گئی، وہ اُن کا انکسار تھا۔ ان کی علمی بلندی، عالمی شہرت اور عزت کے باوجود، وہ خاکساری کا پیکر تھے۔ انہوں نے علم کو کبھی ناموری یا شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ ہمیشہ اسے انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ سمجھا۔یہاں اس امر کا ذکر بے حد ضروری ہے کہ پروفیسر خورشید احمد کشمیر کی آزادی کے پُرزور حامی تھے۔ ان کا سید علی شاہ گیلانی کے ساتھ ایک گہرا فکری اور روحانی تعلق تھا، جو صرف عقیدت پر مبنی نہ تھا بلکہ ایک مشترکہ جدوجہد اور مقصد کی نمائندگی کرتا تھا۔ جب آزاد کشمیر میں مزاحمتی کیمپ کسی کٹھن صورتحال سے دوچار ہوتا، تو سید علی گیلانی اکثر کہا کرتے کہ ’’پروفیسر خورشید احمد سے رہنمائی لی جائے‘‘۔ گیلانی صاحب نے ہمیشہ انہیں ایک فکری مربی اور تحریکِ آزادی کے حقیقی خیر خواہ کے طور پر عزت دی۔ خود پروفیسر صاحب نے گیلانی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب کے انتساب میں لکھا:’’اپنے محترم بھائی اور تحریکِ حریت کے بے مثال قائد سید علی گیلانی کے نام، جن کی شخصیت اور تاریخی جدوجہد میں، الحمدللہ، آج کے دور میں اقبال کے مردِ مومن کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔‘‘پروفیسر خورشید احمد، گیلانی صاحب کو ایک ایسا مردِ مومن سمجھتے تھے، جو اقبال کی فکری روایت کا جیتا جاگتا استعارہ تھا، ایک ایسا رہنما جس کا ہر قدم تحریکِ آزادی کے لیے وقف تھا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اکثر اپنے حقیقی محسنوں اور فکری رہنماؤں کی قدردانی میں کوتاہی کر جاتے ہیں۔ ہم ظاہری اور سطحی شخصیات کے پیچھے وقت ضائع کرتے ہیں، جبکہ پروفیسر خورشید احمد جیسے دانشور، جنہوں نے فکر و نظر کی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دیں، اکثر ہماری توجہ سے اوجھل رہتے ہیں۔یہ رویہ دراصل ہماری اس اجتماعی بیماری کا مظہر ہے، جس میں ہم نے علم، اخلاص اور نظریاتی بصیرت کی قدر کھو دی ہے۔ آج کے شور زدہ ماحول میں، اہلِ علم کی آوازیں دب جاتی ہیں، اور ان کی حکمت پر گرد جم جاتی ہے، جبکہ خالی نعرے اور کھوکھلی باتیں منظرِ عام پر چھا جاتی ہیں۔