آپ نےپوچھا ہے

مفتی خالد عمران خالد

سوال۔۔۔اگر کسی شخص نے *طلاق صرف کاغذات میں (مثلاً نادرا یا کسی اور دستاویز میں) درج کی ہو، زبانی یا نیتاً طلاق نہیں دی اور یہ سب کچھ صرف کسی قانونی یا دنیاوی فائدے (جیسے امریکہ کا پاسپورٹ لینے) کے لیے کیا ہو، تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔کیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب ۔۔۔اگر واقعی طلاق کا ارادہ تھااور طلاق کے الفاظ تحریری طور پر(کسی بھی صورت میں) دئیےگئے، تو طلاق واقع ہو جائے گی، چاہے نادرا کے لیے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے۔
اگر محض کاغذی کارروائی کے لیے طلاق لکھی گئی، دل میں طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا، تو جمہور فقہاء کے نزدیک بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، کیونکہ تحریری طلاق بھی ارادہ کے بغیر نافذہو سکتی ہے، لہٰذا صرف کاغذات میں طلاق بھی شرعاً طلاق بن سکتی ہے۔

سوال۔۔۔ رجوع ممکن ہے یا نہیں؟

جواب ۔۔۔اگر یہ پہلی یا دوسری طلاق ہے، اور عدت کے اندر رجوع کیا گیا تو رجوع ہو جائے گا، نکاح برقرار رہے گا۔اگر عدت گزر گئی تو نیا نکاح کرنا ہوگا رجوع کے لیے۔اگر تین طلاقیں دی ہیں، تو رجوع ممکن نہیں۔

سوال ۔۔۔انفرادی نماز میں (یعنی اکیلے پڑھنے والے کی نماز میں) اگر کسی دوسرے شخص نے اشارے سے لقمہ دیا (مثلاً قرآن کی آیت بھولنے پر ہاتھ یا آنکھ کے اشارے سے یاد دلایا)، تو اس کا کیاحکم ہے؟

جواب ۔۔۔اشارہ دینے والے کا حکم۔ اگر وہ شخص نماز میں نہیں تھا اور اس نے اشارے سے لقمہ دیا (یعنی زبان سے کچھ نہ کہا)، تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔اشارہ کرناویسے مکروہ ہے، لیکن ضرورت کے وقت معاف ہے۔نمازی کا حکم (جس نے اشارہ سمجھا)۔۔ اگر وہ اشارہ سے سمجھ گیا اور اس پر اپنی قرأت درست کر لی، تونماز فاسد نہیں ہوگی البتہ بغیر ضرورت کے نماز کی طرف توجہ کرنا مکروہ ہے، لیکن فسادنماز نہیں ہوتا۔

سوال۔۔۔ نماز میں گلہ میں مفلریاچاردر لٹکانا کیسا ہے وضاحت فرمادیں ؟

جواب ۔۔۔نماز (فرض، نفل یا جنازہ) کے دوران رومال یا چادر گلے میں لٹکانا شرعاً ناجائز یا مکروہ تحریمی نہیں، لیکن مکروہ تنزیہی (ناپسندیدہ) ضرور ہے، بشرطیکہ وہ رومال بلا ضرورت گلے میں لٹکا ہو صرف عادت یا اسٹائل کے طور پر۔ نماز کی خشوع و خضوع میں خلل ڈالے یا لوگوں کی توجہ ہٹائے۔فقہاء نے نماز میں غیر ضروری کپڑوں کو ایسے انداز سے رکھنا جو تکبر یا بےتوجہی کی علامت ہو،مکروہ قرار دیا ہے۔ نماز سے پہلے رومال یا چادر کو ترتیب سے اوڑھ لیا جائے یا کندھے پر رکھ لیا جائے۔ اگر گرمی یا سردی کی کوئی خاص ضرورت ہو تو گلے میں لٹکانا معیوب نہیں۔نماز جنازہ میں بھی نماز کی تمام شرائط(جسم، کپڑوں کی صفائی، ادب، سکون وغیرہ) کا خیال رکھنا ضروری ہے، لہٰذا وہاں بھی بہتر یہی ہے کہ سنجیدہ، سادہ اور مہذب اندازاپنایا جائے۔

سوال۔۔۔ عقیقہ کاشرعی حکم کیا ہے اگرکوئی فرد دومرتبہ عقیقہ کرلے تو ؟

جواب ۔۔۔اگر کسی شخص کے دو مرتبہ عقیقہ ہونا مقصود ہو یعنی پیدائش کے وقت ایک بار عقیقہ ہوچکا ہو اور اب دوبارہ کرنا چاہتے ہیں (مثلاً بطور نفل یا مسنون عمل کی نیت سےتوشرعاً دوبارہ عقیقہ کی کوئی پابندی نہیں۔عقیقہ زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے۔اگر ایک بار عقیقہ ہوچکا ہو (خواہ ایک بکرے سے یا دو سے) تو دوبارہ کرنے کی حاجت نہیں۔ہاں اگر پیدائش کے وقت مکمل عقیقہ نہ ہو سکا ہو (مثلاً لڑکے کا ایک بکراہوا، دو نہیں ہوئے) تواب ایک اور بکرا کیا جا سکتا ہےتاکہ سنت مکمل ہو جائے۔

سوال۔۔۔ قبر کی زندگی کے بارے میں دین کیا کہتا ہے؟

جواب ۔۔۔قبر کی زندگی (حیات برزخیہ) ایک برحق اور ثابت شدہ حقیقت ہے۔ میت کو قبر میں وفات کے بعد برزخی حیات عطا کی جاتی ہے، جو دنیاوی حیات سے مختلف لیکن ایک خاص قسم کی شعور والی زندگی ہوتی ہے۔ میت کو دفن کے فوراً بعدسوال و جواب (منکر نکیر)کا مرحلہ پیش آتا ہے۔نیک لوگ قبر میں راحت اور جنت کی نعمتیں پاتے ہیں۔گناہگاریا کافرکے لیے قبر عذاب کا مقام بن جاتی ہے۔یہ زندگی قیامت تک رہتی ہے، پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جائے گا۔نبی ﷺ نے فرمایاقبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے (ترمذی)

سوال۔۔۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی قبر کی حیات کے بارے میںشریعت کیاحکم کرتی ہے؟

جواب ۔۔۔ انبیاء علیہم السلام قبر میں زندہ ہوتے ہیں، اور ان کی یہ زندگی حقیقی اور کامل ہوتی ہے، جس میں وہ عبادت بھی کرتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔۔۔الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون(یعنی انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نماز ادا کرتےہیں(ابوداؤد، صحیح) ان کی یہ حیات دنیاوی جیسے جسم و روح کے ساتھ ہے، لیکن احکام دنیا ان پر لاگو نہیں ہوتے۔ انبیاء کی قبور کی مٹی ان کے جسم مبارک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

سوال ۔۔۔مصیبت کے وقت اذان دینےکاشرعی حکم کیا ہے؟

جواب۔۔شرعاً اذان فرض نمازوں کے لیے مشروع ہے،اور نومولود بچے کے بائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت دیا جاتا ہے۔۔۔اس کے علاوہ مشروع یا سنت نہیں ہے۔۔۔ کسی مصیبت کے خاتمے کے لیے اذان دینا قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے۔۔۔۔اور احناف کے ہاں اس حوالے سے کوئی رائے منقول نہیں ہے۔۔۔۔ البتہ شوافع کے نیزدیک تکالیف،مصائب ، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دی جاسکتی ہے۔۔۔۔ ۔۔لیکن شوافع بھی اسے باقاعدہ مشروع نہیں سمجھتے بلکہ جائز سمجھتے ہیں۔۔۔۔جولوگ مصیبت کے وقت اذان کے قائل ہیں وہ کچھ کمزور روایات سے بھی دلیل لیتے ہیں ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـاس روایت کو صفوان سے سوائے عبدالرحمان بن سعد کے کوئی بیان نہیں کرتا اور بکر بن محمد کا تفرد ہے(برقم: 3671، معجم الاوسط ،)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل ہے کہ علی کہتے ہیں مجھے حضور سیّد عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد دوم ص 149، )احناف کے امام شامی ؒنے اس بنیاد پر کہا ہے کہ ۔۔۔۔تکالیف،وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کی گنجائش ہے۔ تاہم اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت لازم ہے:
(ا)اس عمل کے سنت یا مستحب ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔(ب)اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔(ج) مساجد میں یہ اذان نہ دی جائے۔(د)ایسی وضع کے ساتھ نہ دی جائے جس سے اذان نماز ہونے کا اشتباہ ہو۔(ڈ) اس کے لیے کسی مخصوص ہیئت اور اجتماعی کیفیت کا التزام نہ کیا جائے۔مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھ کر وبا کے خاتمے کے لیے اذان دی جائے تو حکم کے اعتبار سے یہ مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں ہے، نیز یہ بطورِ علاج ہے،کوئی عبادت نہیں ہے۔( رد المحتار:کتاب الصلاة، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لها الأذان في غیر الصلاة، جلد اول ص 385،المفاتيح شرح مشكاة المصابيح جلد دوم ص 547 )۔۔۔۔مفتی کفایت اللہ کا اس حوالے سے فتوی ہے کہ۔۔دفعِ وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطورِ علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں‘‘۔ ( کفایت المفتی جلد سوم ص 52) ۔۔۔۔اور فتوی محمودیہ میں ہے کہ۔۔بلا کے دفعیہ کے لیے اذان کہنا ثابت بلکہ مستحب ہے، اور بخار کے دفعیہ کے لیے اذان کہنا ثابت نہیں ہے، شرعاً دفع بلا کے لیے اذان اس طرح کہی جائے کہ اذان نماز کا اشتباہ نہ ہو‘‘( فتویٰ محمودیہ جلد سوم ص 298..۔بریلوی مکتبہ فکر کے احمد رضا خان بھی مصیبت کے وقت اذان کے قائل ہیں ۔۔۔(فتاویٰ رضویہ ، جلد پنجم، ص 370،)
لیکن عام علماء عموماً اور اہل حدیث علماء کا خصوصاً کہنا یہ ہے کہ عبادت توقیفی چیز ہے،اذان عبادت ہے،یہ کب کہنا چاہئے،یہ شریعت نے واضح کیا ہے،لہذا فرض نماز اور بچے کے کان کے علاوہ اذان دینا بدعت ہے۔۔

مفتی صاحب سے آپ اس نمبر اور ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں

03005259116

Taibahfoundation1@gmail.com