سوال۔۔۔ رات میں جھاڑو لگانا شیشہ دیکھنا اورکنگی کرنا کیسا ہے؟
جواب ۔۔۔۔جھاڑو لگانا دن میں بھی جائز ہے اور شام یا رات میں بھی جائز ہے، 24 گھنٹے میں کسی وقت جھاڑو لگانے کی کوئی ممانعت شرعی طور پہ نہیں ہے نہ کسی خاص وقت میں جھاڑو لگانے سے کسی خاص قسم کےنقصان کا اندیشہ ہے۔ نیز شام یا رات کےاوقات میں کنگی کرنا یا آئینہ دیکھنا بھی جائز ہے شرعاََ کوئی اس کے اندر قباحت نہیں ہے یہ وہم ہے جو لوگوں کے درمیان مشہور کر دیا گیا ہے ۔
سوال۔۔۔ نماز نہ پڑھنے والوں کے باقی اعمال قبول ہو جاتے ہیں رہنمائی فرمائیے گا ؟
جواب ۔۔۔نماز اسلام کا ستون ہے پنجگانہ ادا کرنے سے بڑھ کے کوئی نیکی نہیں ہے۔ نہ ادا کرنا گناہ ہے۔ زنا چوری وغیرہ سارے بڑے بڑے گناہ ہیں لیکن بلا عذر شرعی نماز نہ پڑھنا ان سب گناہوں سے بڑا ہے۔ نماز کو سستی غفلت کی وجہ سے چھوڑنے والاسخت گنہگار ، فاسق ہے اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا باقی نیک اعمال کرتا ہے تو اس کے باقی نیک اعمال مقبول ہوں گے لیکن نماز چھوڑنے کا وبال اور جرم اتنا بڑا ہے کہ یہ اعمال اس کا تدارک نہیں کر سکتے حدیث مبارکہ میں عدم قبول اعمال کا جو ذکر آیا ہے اس سے مراد بھی یہی قبول رضا ہے۔ نماز پنجگانہ ادا کرنے سے بڑھ کے کوئی نیکی نہیں ہے اور نہ پڑھنے سے بڑھ کے کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس لیے نماز ادا کرنی چاہیے یہ خیر کے کاموں کے اندر سب سے بہترین کام ہے اور نہ پڑھنا وبال ہے اور اس کا تدارک ممکن نہیں ہے۔
سوال ۔۔۔میں ادارے میں نوکری کرتا ہوں سٹور کی ڈیوٹی میرے پاس ہوتی ہے کاؤنٹر بھی سنبھالتا ہوں تلاوت اور کسی کتاب کا مطالعہ بھی کرتا رہتا ہوں کیا یہ میرے لیے درست ہے؟
جواب ۔۔۔ملازمت کے اوقات ہوتے ہیں اور فرض واجب اور سنت موکدہ نمازوں کی ادائیگی اور طبعی حاجت کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگر سائل کاؤنٹر پہ بغیر کسی کوتاہی کے اپنے ذمے کا کام لٹانے کے بعد فارغ وقت میں وہیں بیٹھے بیٹھے تلاوت کرتا ہے مفید کتاب کا مطالعہ کرتا ہے یا ساتھیوں سے بامقصد بات کرتا ہے وقت ضائع نہیں کرتا تو یہ بہرحال درست ہے لیکن مالک کی اجازت کے بغیر تلاوت یا مطالعہ کرنا جائز نہیں ہے اگراس سے اس کے کام میں خلل واقع ہوتا ہے۔
سوال ۔۔۔قبرستان میں عورتوں کا جانا اور ایصال ثواب کا حکم گاؤں میں رہنے والے لوگ اور بزرگوں سے میں نے سنا ہے کہ عورت قبرستان جائے تو ہاتھ میں مٹی رکھے گی اگر ایسا نہ کرے گی تو مرُدوں کوننگی نظر آئے گی کیا اس کی کوئی حقیقت ہے ؟
جواب ۔۔۔عورتوں کا قبرستان میں جانے سے متعلق فقہ کی کتابوں میں یہ بات تو ملتی ہے کہ عورتوں کو قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ اور بلند آواز سے روئیں تو قبرستان جانا گناہ ہے کیونکہ حدیث میں ایسی عورتوں پہ لعنت کی گئی ہے ہاںاس صورت اور اس اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ شور شرابہ نہیں کرے گی بالوں کو نہیں بکھیرے گی ۔چیخے اور چلائے گی نہیں، پیٹے گی نہیں اور آخرت کا ذکر کرے گی بہرحال اختیاط بہتر ہے۔ نہ جائے کیونکہ دیکھا گیا گیا کہ عورتیں خود پر قابو نہیں رکھ سکتیں ۔
سوال ۔۔۔اکثر میرے گھر والے رات کو کھانا پکا کے مردوں کو ثواب پہنچانےکیلئے لمبی دعاعیں کرتے ہیں ساتھ ہی ان کا تصو ر یہ ہے کہ یہ کھانابھی ان تک پہنچتا ہے ۔ اور یہ کھانا پہنچتا ہے۔حقیقت کیا ہے؟
جواب ۔۔۔مردوں کے ایصال ثواب کے متعلق بعض کتابوں میں موجود ہے کہ اگر کسی نیک کام کو کیا جائے اس کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے البتہ کھانا مردوں تک پہنچنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس غرض سے کھانا کے برتنوں کا ڈھک دینا کھولنا درست بھی نہیں ہے اور یہ بدعت ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی کا صدقہ ثواب پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔اسی طرح اعمال صالح کے اندر کنواں بنا دینا ،کسی بچے کو پڑھا نا،کوئی نیکی کا کام کر دینا ۔ یہ ان کو ثواب پہنچنے کا ذریعہ ہے۔
سوال۔۔۔ میں نے اپنے سگے بھائی کی بیٹی کو گود لیا ہے جو اب تین سال کی ہے۔ اب سکول میں داخل کروانا چاہتا ہوں مگر میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ میں اور میری زوجہ اپنا نام والدہ اور والد کے خانے میں نہیں لکھوا سکتے۔کیا کریں؟
جواب ۔۔اسلامی شریعت میں گود لینے (ایڈاپشن) کا تصور مغربی قوانین سے مختلف ہے۔ شریعت گود لینے کو ممنوع نہیں قرار دیتی، بلکہ یتیم یا ضرورت مند بچے کی پرورش، تعلیم اور دیکھ بھال کرنے کو بہت بڑا ثواب کا کام سمجھتی ہے۔ تاہم، گود لیا ہوا بچہ حقیقی اولاد کی طرح نہیں بن سکتا۔ اسے اپنے حقیقی والدین کی طرف منسوب رکھنا ضروری ہے، اور اس کا نام یا نسب تبدیل کر کے گود لینے والوں کی طرف منسوب کرنا حرام ہے۔ یہ حکم قرآن مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔۔’’اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں بنائے، اور تمہاری وہ بیویاں جن کو تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں نہیں بنائیں، اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنائے۔ یہ صرف تمہارے منہ کی باتیں ہیں، اور اللہ سچی بات کہتا ہے اور وہی سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔ اور اگر تم ان کے باپ نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس چیز میں جو تم سے بھول چوک ہو جائے تم پر کوئی گناہ نہیں، لیکن جو تمہارے دل قصداً کریں (اس پر گناہ ہے)۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔یہ آیات اس دور جاہلیت کی رسم کو ختم کرتی ہیں جہاں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا، اور اس سے وراثت، نکاح وغیرہ کے احکام تبدیل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے یہ واضح کیا کہ گود لینے سے نسب نہیں بدلتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو گود لیا تھا، اور لوگ انہیں زید بن محمد کہنے لگے، لیکن اللہ نے اسے منع فرمایا اور انہیں زید بن حارثہ ہی کہنے کا حکم دیا۔آپ کے کیس میں، بچی آپ کے سگے بھائی کی حقیقی بیٹی ہے، تو اس کا نسب اپنے حقیقی باپ (آپ کے بھائی) کی طرف رہے گا۔ آپ اسے اپنی بیٹی کہہ کر منسوب نہیں کر سکتے، نہ ہی اس کا سرنام تبدیل کر سکتے ہیں۔ سکول داخلے کے لیے، فارم میں والد اور والدہ کے خانے میں حقیقی والدین کے نام لکھیں۔ اگر حقیقی والدین دستیاب نہ ہوں (جیسے وفات یا دیگر وجوہات)، تو گارڈین (سرپرست) کے طور پر اپنا اور اپنی زوجہ کا نام لکھیں، اگر فارم میں الگ خانہ ہو۔ پاکستان میں، سکول اکثر گارڈین شپ سرٹیفکیٹ قبول کرتے ہیں، اور بچی کا برتھ سرٹیفکیٹ اس کے حقیقی والد کے نام پر ہو گا۔
سوال ۔۔۔میں اور میرا کزن کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ کاروبار یہ ہوگا کہ گیم زون ہوں گے یہ ہمارے گیم زون میں صرف سکرینوں پہ گیم چلے گی، اسکرینوں پہ گیم چلانے کے ساتھ جومیوزک چلتا ہے وہ ہم بند کریں گے اور ہم نے یہ سوچا ہے کہ جن کمروں میں سکرینیں رکھیں گے ان اسکرینوں پر گیم کے علاوہ کوئی چیز نہیں چل سکے گی ۔نمبر کے انتظار کرنے والوں کے لیے ایک اور جائز گیم رکھیں گے جس پہ وہ مصروف رہیں گے۔ اب دریافت طلب عمل یہ ہے کہ کیا اس صورت میں گیم زون کا کاروبار کرنا جائز ہے ؟
جواب ۔۔شریعت میں کھیل کود اور تفریح کو جائز قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ یہ حدود میں رہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’اپنے دل کو زندہ رکھو، کیونکہ وہ تھک جاتا ہے جیسے جسم تھک جاتا ہے‘‘ (مستدرک حاکم)۔ تاہم، کھیل کے جائز ہونے کے لیے درج ذیل شرائط ضروری ہیں۔بذات خود جائز ہو۔اس میں حرام عناصر جیسے موسیقی، جانداروں کی واضح تصاویر، قمار (جوئے کی مانند عناصر)، یا فحاشی نہ ہوں۔منفعت ہو۔یہ محض وقت گزاری نہ ہو بلکہ دینی یا دنیوی فائدہ دے، جیسے جسمانی ورزش، ذہنی تربیت، یا تعلیم۔غیر شرعی امور سے پاک ہو۔۔ اس سے نماز، روزہ یا دیگر فرائض میں غفلت نہ ہو، اور اخلاقی خرابیاں جیسے گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا نہ پیدا ہوں۔غلو نہ ہو۔کھیل میں اتنا مشغول نہ ہو جائیں کہ زندگی کے اہم امور متاثر ہوں۔اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو کھیل ناجائز ہو جاتا ہے، اور اس کا کاروبار چلانا بھی حرام، کیونکہ یہ گناہ میں تعاون شمار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی میں مدد نہ کرو‘‘ (سورۃ المائدہ: 2)۔ویڈیو گیمز اور گیم زون کا مخصوص حکم ویڈیو گیمز کی اقسام مختلف ہیں، اور ان کا حکم ان کے مواد پر منحصر ہے:اگر گیمز میں حرام عناصر ہوں۔جیسے جانداروں کی واضح تصاویر (جو تصویروں کے حرام ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں)، موسیقی، قمار، یا فحاشی، تو ایسے گیمز کھیلنا اور ان کا کاروبار ناجائز ہے۔ زیادہ تر علماءکا موقف ہے کہ عام ویڈیو گیمز ان عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں، لہذا گیم زون کا کاروبار حرام ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں۔گیمز وقت کا ضیاع کرتے ہیں اور کوئی حقیقی منفعت نہیں دیتے۔نماز اور دیگر فرائض میں غفلت پیدا ہوتی ہے۔یہ لہو ولعب (بے کار تفریح) میں داخل ہے، جو شیطان کی طرف سے ہے۔احتیاط ہی لازم ہے۔
سوال ۔۔۔حج اور عمرے کے موقع پہ تصویر ویڈیو بنانا ،فیس بک پہ سٹیٹس شیئر کرنا کیسا ہے؟
جواب ۔۔۔حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مکاتب فکر کے اکثریتی علماء کا موقف ہے کہ جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے، چاہے وہ ہاتھ سے بنائی جائے، کیمرے سے، یا ڈیجیٹل طریقے سے۔ہاں ضرورت شدیدیہ کے تحت یعنی پاسپورٹ، شناختی کارڈ، یا قانونی دستاویز کے لیے تصویر بنانا جائز ہے، کیونکہ یہ ضرورت ہے۔حج اور عمرہ میں اپنی عبادت کی ویڈیو تصاویر سیلفی بنانا نہ صرف عبادت کی روح اخلاص اور توجہ اللہ کو ختم کر دیتی ہے بلکہ ریا نمود کا سبب بھی بنتی ہیں ۔اس لئے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
03005259116
Taibahfoundation1@gmail.com
مفتی صاحب سے آپ اس نمبر اور ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں






