مفتی خالد عمران خالد
بلااجازت کسی کے کمرے میں داخل ہونا
سوال ۔۔۔میری نند/بھابھی سونے سے پہلے میرے کمرے میں داخل ہوتی ہے کبھی میں سوئی ہوتی ہوں کبھی جاگی رہتی ہوں مجھے ان کا یہ فعل عجیب لگتا ہے میری رہنمائی فرمائیں میں کیا کروں ؟
جواب۔۔۔بغیر اجازت کسی کے کمرے یا گھر میں داخل ہونا جائز نہیں لہٰذا آپ کی نند /بھابی کا آپ کا کمرے میں بغیر اجازت کے داخل ہونا وہ بھی خاص آرام کے اوقات میں جائز نہیں آپ کی نند /بھابھی کو آپ سے اجازت لینی چاہیے اچانک کمرے میں داخل نہیں ہونا چاہیے آپ اپنی بھابھی /نند کو اچھے طریقے سے سمجھا دیں کہ آئندہ اس بات کا خیال رکھیں کیونکہ قرآن حکیم میں بھی اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو تم اپنے خاص رہنے کے گھروں کے سوا دوسرے کے گھروں میں مت داخل ہو جب ان سے اجازت حاصل نہ کر لو اجازت لینے سے قبل ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو یہی تمہارے لیے بہتر ہے یہ بات تم کو اس لیے بتائی ہے تاکہ تم خیال رکھو اس پہ عمل کرو* مفتی شفیع رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تنبیہ ضروری آج کل اکثر لوگوں کو استیزان/اجازت کی طرف کوئی توجہ نہیں باقی رہی اس عمل کوترک کرنا ایک ایک امروجوب کا گناہ ہے (پردہ اوراجازت لازمی ہے)
سرکےبالوں کوکاٹنا یامخصوص انداز بنانا
سوال ۔۔۔ہمارے علاقے میں خواتین سر کے اگلے حصے سے کچھ بال کاٹتی ہیں کیا اس طرح کا کام کرنا جائز ہے کہ نہیں؟
جواب۔۔۔گنے اور لمبے بال عورتوں کے لیے باعث زینت ہیں تفسیرروح البیان میں ہے کہ آسمان میں بعض فرشتوں کی تسبیح کے الفاظ یہ ہیں پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھی سے زینت بخشی ہے اور تو کچھ چوٹیوں سے عورتوں کا بلا عذر سر کے بالوں کا بال کاٹنا اور مردوں کی مشابت اختیار کرنا ناجائز ہے ایسی عورتوں پہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے مشکوٰة شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کی لعنت ہے ان مردوں پہ جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پہ جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں البتہ اگر شرعی عذر ہے مثلا علاج کی غرض سے بال کٹوانے ہوں یا بال اتنے طویل ہو جائیں کہ سرین (کمر سے بھی نیچے تک پہنچ جائیں) اور عیب دار معلوم ہو تو فقط زائد بالوں کا کاٹنا جائز ہوگا حاصل یہ ہے کہ عورتوں کا مردوں کی مشاہبت یا فیشن کے طور پہ بال کاٹنا ناجائز ہے حتی کہ اس معاملے میں شوہر کی اطاعت بھی جائز نہیں۔۔ تفسیر روح البیان میں لکھا کہ خواتین کا فیشن کے طور پہ سر کے اگلے حصے کے بال کٹوانا جائز نہیں ہے ۔
بچےکی صفائی اورپمپرزتبدیل کرنے کے بعد وضو
سوال ۔۔۔کیا بچے کی نجاست صاف کرنے کے بعد ماں کو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہے اگر نہیں ہے تو کس عمر تک اور اگر ہے تو کس عمر تک؟
جواب۔۔۔کسی بھی عمر کے بچے کی پمپرز یانجاست صاف کرنے کے بعد ماں کا دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے وضو صرف ان چیزوں سے ٹوٹتا ہے وضو توڑنے والی چیزیں درجہ ذیل ہیں
۱۔پاخانہ یا پیشاب کی جگہ سے کسی چیز کا نکلنا ۔۲۔جسم سے خون یا پیپ کا نکل کے مخرج سے پاک جگہ پہ پہنچنا ۔۳۔ٹیک لگا کے سونا۔۴۔منہ بھر کے قے کا آنا ۵:۔بالغ کے نماز جنازہ کے علاوہ نماز کے اندر قہقہ لگانا ۔۶۔بے ہوشی یا مباشرت یعنی میاں بیوی کا ازداوجی حقوق کے لیے ملنا۔البتہ بچے کی نجا ست سے صاف کرتے ہوئے ، ماں کے کپڑے یا بدن کسی حصے پہ لگے اسے پاک کرنا ضروری ہے فقط واللہ عالم بالصواب
زبردستی تبلیغ کےلئےیااجتماع لیےکرجانا
سوال ۔۔۔تبلیغی جماعت والے زبردستی چار ماہ کی جماعت تشکیل دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے جب تبلیغ جماعت والے چار ماہ کی تشکیل دے انہیں گشت کرنے کیلئے کہتے ہیں اور ہم انہیں عذر /مجبوری بتاتے ہیں تو یہی کہتے ہیں اللہ پورا کرے گا ہم کوئی بھی عذر بتاتے ہیں تو جماعت والے بھائی ایک ہی بات بولتے ہیں سب کچھ اللہ کرنے والا ہے چار ماہ میں نکل جاؤ کہ یہ کہنا ان کے لیے صحیح ہے؟
جواب۔۔۔واضح رہے تبلیغ/یادینی اجتماع میں وقت لگانا اصلاح ہے اور دین کی دعوت کےلیے بہت مفیدہے لیکن اس میں افراد /شرکاءکی نوعیت اور نجی معاملات کا خیال رکھنا چاہیے مصلحت کے ساتھ ترغیب دینی چاہیے اگر کوئی شخص عذر کااظہار کرے تو بلاوجہ جبر نہیں کرنا چاہیے۔ عذر پیش کرتے وقت یہ کہنا کہ سب کچھ اللہ کرنے والا ہے تم چار ماہ میں نکل جاؤ یا اجتماع کے لیے نکل جاؤ تو یہ توکل کے خلاف ہے اس لیے کہ توکل کہتے ہیں اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ پہ اپنا معاملہ چھوڑ دینا ۔اگر کوئی شخص کسی عذر کی بنا پہ وقت نہیں لگا سکتا یا نہیں جا سکتا تو اسے نکلنے پہ مجبور نہ کیا جائے۔
منافع رکھنے کی حدکہاں تک رکھنی چائیے
سوال ۔۔۔ ایک بندہ شہد کا کاروبار کرتا ہے شہد فی کلو 2800 روپے کے حساب سے لیتا ہے پھر وہی 35سوروپےکے حساب سے بیچتا ہے تو کیا اتنا بڑا نفع جائز ہے قران و حدیث کی روشنی میں نفع کے بارے میں جواب عنایت فرما دیں ۔؟
جواب۔۔۔اصولی طور پر کاروبار میں نفع کوئی مقرر نہیں ۔دھوکہ دیئے بغیر نفع میں ایک مقرر اورمناسب حد تک وصول کر سکتا ہے البتہ بازاری قیمت سے غیر معمولی زیادہ قیمت وصول کرنا مناسب نہیں ہے۔ نفع جہاں تک چاہیے لیکن کسی کو دھوکہ نہ دے۔ واضح رہے کہ غذائی بحران کی صورت میں حکومت کی طرف سے غذائی اجناس کی قیمت یا نفع کی شرح مقرر کرنے کی گنجائش ہے غذائی اجناس کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت اعتدال کےمطابق رکھنی چاہے۔ جب غذائی بحران ہو تو غذائی ایشیاء کی قیمت بائع اور مشتری کی باہم رضامندی سے جو بھی طے ہو جائے جائز ہے اس کا کوئی حد مقرر نہیں البتہ جہاں کسی چیز کی شدید ضرورت ہو اور بازار میں اس چیز کی نہ ہونے سے انسان متاثر ہورہے ہوں اور بیچنے والا اس دوران طےشدہ قیمت سے زیادہ وصول کرے اس چیز کی قیمت خرید کی نصف کے برابر یا اس سے زیادہ توفقہاء نے ایسی صورت کو غبنِ فاحش (کھلا دھوکہ) قرار دیا ہے، اور اسے ناجائز و ممنوع کہا ہے۔
پسند کی شادی اورنکاح سے قبل بات چیت کرنا
سوال ۔۔۔پسند کی شادی کرنا اور نا محرم سے فون پہ بات کرنا کیا لڑکا لڑکی کو پسند سے محبت کر کے نکاح کرنا درست ہے کیا لڑکا لڑکی موبائل فون پہ بات کر سکتے ہیں ؟
جواب۔۔۔ عمومی طور پر پسند کی شادی میں وقتی جذبات اور عمرانی کشش محرک بن جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جذبات کمزور پڑتے ہیں، نتیجتاً اکثر ایسی شادیاں ناکامی اور علیحدگی تک جا پہنچتی ہیں۔ اس کے برعکس، خاندان کے تجربہ کار والدین اور بزرگ رشتے کی موزونیت، خاندان، مزاج اور عادات کا بہتر انداز میں جائزہ لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے طے کردہ رشتے زیادہ پائیدار اور کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ شریف گھرانوں میں ہمیشہ یہی طریقہ کار رائج رہا ہے، اور اکثر اوقات ابتدائی ناپسندیدگی بھی وقت کے ساتھ گہری محبت اور مضبوط تعلق میں بدل جاتی ہے۔
اسی لیے ضروری ہے کہ لڑکے اور لڑکی بغیر سوچے سمجھے اپنی زندگی کا بڑا فیصلہ خود اٹھانے کے بجائے اپنے بڑوں پر اعتماد کریں اور ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ شریعت مطہرہ نے بھی نکاح کے معاملے میں والدین اور سرپرستوں کے اختیار کو اسی حکمت کے تحت رکھا ہے تاکہ اولاد کو معاشرتی، اخلاقی اور نفسیاتی خرابیوں سے محفوظ رکھا جا سکے ۔بغیر کسی شرعی مجبوری کے خاندان کے بڑوں کی موجودگی میں ان سے ہٹ کر خود فیصلے کرنا گویا اللہ کی نعمت (سرپرستی) کی ناقدری ہے۔ تاریخ اور مشاہدات اس بات سے بھرے پڑے ہیں کہ کسی کے دھوکے، فریب یا وقتی جذبات میں بہہ کر کیے گئے فیصلے بعد میں پوری زندگی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا پسند کی بنیاد پر شادی کرنا شرعاً اور اخلاقاً مناسب نہیں اور اس سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔نمبر دو:اجنبی مرد اور عورت کا موبائل فون، میسج یا کسی بھی ذریعے سے آپس میں بات چیت کرنا شرعاً ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے، کیونکہ اس سے فتنہ، غلط فہمیاں اور بے راہ روی کے دروازے کھلتے ہیں۔ شریعت کا مزاج یہی ہے کہ بداخلاقی اور بے احتیاطی کے تمام ممکنہ اسباب سے بھی بچا جائے۔
عمرہ پرممانی کوساتھ لیکرجانا
سوال ۔۔۔میرا ان شاءاللہ عمرے پہ جانے کا ارادہ ہے میں اپنی بیگم کے ساتھ میری ممانی جن کی عمر 50 کے قریب ہے اور سات جانا چاہتی ہیں میرے ماموں اجازت دے دی ہے اور بتایا ہے کہ ایک پیپر بنے گا جس پر میں اجازت دوں گا پوچھنا یہ ہے کیا میری ممانی عمرے پہ میرے ساتھ جا سکتی ہیں؟
جواب۔۔۔ واضح رہے کہ عورتوں کے لیے سفر شرعی کی مسافت 48 میل یا اس سے زیادہ بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی تنہایا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں کسی بھی حالت میں جانا جائز نہیں ہے۔حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ یعنی جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پہ یقین رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں وہ محرم کے بغیر تین رات کا سفر کرے اپ اپنی ممانی کے لیے محرم نہیں ہیں اس لیے اپ کی ممانی پہ لازم ہے اگر وہ عمرے پہ جانا چاہتی ہیں تو اپنے کسی محرم کے ساتھ عمرے پہ جائیں آپ کے ماموں کی طرف سے اجازت دینا کافی نہیں ہے بہرحال بغیر محرم کے عمرے پہ جانا جائز نہیں ہے۔
03005259116
Taibahfoundation1@gmail.com
مفتی صاحب سے آپ اس نمبر اور ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں






