وہ مجاہدین کشمیر کے بڑے غمگسار اور حقیقی معنوں میں پشتبان تھے
کم گو تھے،مگر اہل کشمیر کے جوانوںکے ساتھ ان کی دلچسپی دیدنی ہوا کرتی تھی
وہ تحریک آزادی کشمیر کے اولین قافلوں کو سنبھالنے والے افراد میں سے تھے
ان کی اہلیہ محترمہ کا تعلق سرینگر مقبوضہ کشمیر سے تھا
وہ آخری سانس تک پاکستان کی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر رہے
ابو ہادیہ
انہوں نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کیا ہے کہ جو کچھ زبان سے کہا اسے عمل کا جامہ پہنایا ۔یہی ایک مسلمان اور مومن صادق کی نشانی ہے۔یہ 1990 کی شروعات تھیں جب مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے ناجائز اور غاصابہ قبضے کے خاتمے کیلئے ایک بھرپور عوامی مزاحمت نے بھارت کے در و دیوار ہلاکر رکھ دیئے تھے۔ریاست کے طول وعرض سے نوجوانوں پر مشتمل گروپ جوق در جوق کنٹرول لائن سے آزاد کشمیر پہنچ رہے تھے۔ہزاروں کی تعداد میں آنے والے ان قافلوں کو ٹھرانے ‘ ان کی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست سب سے کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا،جس سے نمٹنا جاں جوکھوں سے کم نہیں تھا لیکن جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد جموں وکشمیر نے بحیثِیت مجموعی تن من دھن کی بازی لگاکر یہ مشکل فریضہ بڑے احسن انداز میں انجام دیا۔جماعت اسلامی کے افراد نے اپنے گھر وں کو بھی کھول دیا،جبکہ اپنی گھریلو چیزیں بھی پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ اس کردار نے مہاجرین اور انصار کا جو تصور ہم نے سیرت میں پڑھا یا واعظین سے سنا ، ایک کھلی کتاب کی مانند ہمارے سامنے اجاگر ہوا۔بلاشبہ اس کار خیر میں جماعت اسلامی اور ان کے افراد بازی لے چکے ہیں،جس کا اجر انہیں اللہ تعالی کے ہاں ضرور ملے گا۔

مرحوم شیخ شفیق الرحمان جو انکم ٹیکس آفیسر بھی تھے،وہ ڈیوٹی کے بعد مرکز جماعت اسلامی واقع عید گاہ روڑ پہنچ کر دلی ا ور جسمانی سکون کیلئے گھنٹوں گزارتے تھے۔وہ اگر چہ بہت ہی کم گو تھے،مگر اہل کشمیر کے گبر و جوان کے ساتھ ان کی دلچسپی دیدنی ہوا کرتی تھی۔وہ مسلح جدوجہد کے بانیوں جناب محمد مقبو ل علائی اور محمد اشرف ڈار کیساتھ گھنٹوں ملاقاتیں کرتے تھے۔یہ دونوں احباب بھی شفیق صاحب کی بہت قدر کرتے تھے۔شفیق صاحب کی کشمیری مجاہدین کیساتھ دلچسپی کا شایدیہ پہلو بھی اس لیے نمایاں تھا کہ ان کی اہلیہ محترمہ کا تعلق سرینگر مقبوضہ کشمیر سے تھا۔گوکہ اہل پاکستان ا ور اہل آزاد کشمیر نے اپنے دل فرش راہ کیے رکھے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ اپنوں کی اپنائیت میں سایہ زیادہ پرسکون محسوس ہوتا ہے۔انہیں گھر سے یقینا تحریک ملی ہوتی ہوگی کہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والوں کا زیادہ خیال رکھا جائے۔سو انہوں نے حق ادا کیا ہے۔شفیق صاحب کو نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے کا شوق تھا،اسی شوق کے پیش نظر اس وقت کے امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر جناب عبدالرشید ترابی نے سمع و بصر کا ایک شعبہ قائم کیا،جس کا سربراہ شفیق صاحب کو بنایا گیا۔شفیق صاحب رات کو دفتر جماعت میں پروجیکٹائل پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم پر مبنی فلمیں دکھانے کا اہتمام کرتے،تو حاضرین و سامعین کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔انہوں نے کبھی اپنے آپ کو بڑا آفیسر نہیں سمجھا ،حالانکہ وہ گزٹیڈ آفیسر تھے،یہی وصف انہیں دوسرا میںممتاز کرنے کا باعث بنا۔وہ جب نوکری سے ریٹائرڈ بھی ہوئے تو ان کا دامن صاف اور اجلا تھا،کہ آج ان کے پاس اپنا مکان تک نہیں ہے اور وہ آخری سانس تک پاکستان کی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر رہے اور ان کے بچے بھی کرایہ پر ہیں۔یہی اجلا کردار جماعت اسلامی اور اس کے افراد کو معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے اور جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔شفیق صاحب کی اہلیہ محترمہ پہلے ہی انہیں داغ مفارقت دیکر چلی گئیں جو بٹہ مالو سرینگر سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ مرحوم کئی مرتبہ خود بھی بس سروس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر گئے تھے۔اب وہ بھی اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔انہوں نے سوگواراں میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹے کو چھوڑا ہے ۔


ان کی عمر 82 برس تھی ۔اللہ تعالی ان کی کامل مغفرت فرمائیں اور ان کی سعی جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشیں جو انہوں نے محض اللہ کی رضا کی خاطر اہل کشمیر کیساتھ کی ہے۔یہ شفیق صاحب کی اہل کشمیر کیساتھ محبت اور عقیدت کا ہی اعجاز ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے روح رواں سید صلاح الدین احمد نے انہیں ان الفاظ میں یاد کیا۔تحریک آزادی کشمیر کے اولین قافلوں کے نگران جناب شیخ شفیق الرحمان بھی داغ مفارقت دیکر چلے گئے ہیں ۔ان کی جدائی بذات خود میرے لیے تکلیف دہ ہے۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے اولین قافلوں کو سنبھالنے والے افراد میں سے تھے۔ان خیالات کا اظہار امیر حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین احمد نے شیخ شفیق الرحمان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ شیخ شفیق الرحمان مقبوضہ جموں و کشمیر سے خصوصی لگاو رکھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے دل میں تحریک آزادی کشمیر کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور جب 1990 کے شروع کے ایام میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین سے مجاہدین کے قافلے بیس کیمپ پہنچے تو شیخ شفیق الرحمان ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے مجاہدین کے ان قافلوں کا نہ صرف بھرپور خیال رکھا بلکہ ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنے میں دن رات ایک کیے رکھا ۔بعدازاں انہوں نے نشر و اشاعت کا شعبہ سنبھالا اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔انہوں نے کہا کہ مرحوم زندگی کی آخری سانس تک تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کیساتھ وابستہ رہے، کسی مرحلے پر ان کے عزم و حوصلے نہ پست ہوئے اور نہ ان کے قدم ڈگمگائے۔سید صلاح الدین احمد نے مرحوم کے گھر جاکر لواحقین کیساتھ تعزیت اور ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالی سے مرحوم کے بلندی درجارت کیلئے دعا کی ہے ۔

ان نیک سیرت نفوس میں شہید محمد صفور خان کا تذکرہ اگر نہ کیا جائے تو کشمیری عوام کی مزاحمتی تحریک میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کا جو روشن کردار اب تک رہا ہے وہ ادھورا تصور کیا جائے گا وہ بھی مرحوم شفیق صاحب کی مانند اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جو 8اکتوبر 2005ء میں آنے والے ایک تباہ کن زلزلے میں نہ صرف خود بلکہ اپنے والد گرامی اور اکلوتے فرزند سعد سمیت مرتبہ شہادت پر فائز ہوئےاسی طرح جناب مظہرعباسی فرزند سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کرنل عبدالرشید عباسی کا تذکرہ کرنا بھی ناگزیر ہے جو جماعت کے دوسرے افراد کے ساتھ کشمیری مجاہدین کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے اور یقینا تاریخ ان متذکرہ افراد کو اپنے صفات میں ضرور جگہ دے گی ان لوگوں نے کشمیری مجاہدین کی میزبانی کا جو فریضہ انجا م دیا ہے اسے کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا اور بھی بہت سارے جماعت سے وابستہ افراد ہیں جنہوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر تحریک آزادی کشمیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔گوکہ طویل عرصہ گزر نے کے باوجود یہ لوگ آج بھی اہل کشمیر کے نہاںخانہ دلوں میں بستے ہیںایسے نفوس روز روز پیدا نہیں ہوتے بلکہ صدیاں گزر جاتی ہیں جب ان صفات کے مالک لوگ جنم لیتے ہیں۔ماہنامہ کشمیر الیوم تحریک آزادی کشمیر میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے والے ایسے افراد کو اپنے صفحات میں جگہ دے کرجہاں اپنے لیے فخرانبساط سمجھتا ہے وہیں آنے والی نسلوں کےلیےیہ سبق بھی ہے کہ اہل کشمیر کی جدوجہدآزادی میں جس نے بھی اپنا مقدور بھر کردار نبھایا ہے اسے از بر کرانا ضروری ہے۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را