آہ !!! ماسٹر سید نذیرالدین

مجاھدابو موسٰی بدری

ماسٹر سید نذیر الدین صاحب کپواڑہ ابھی کچھ ماہ قبل سے گلے کے کینسر میں شدید ترین درد و تکلیف میں مبتلا تھے ۔21جولائی سوموار کی شام لاھور شوکت خانم ہسپتال میں انتقال کرگئے ۔36 سال سے وطن سے کوسوں دور ، بہت دور، ھجرت کی زندگی گزارتے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بلآخر ابدی نیند سو ہی گیا۔۔غریب الوطنی میں موت، ایک ایسا زخم ہے جو کبھی بھرنے سے بھرتا ہی نہیں ہے۔ بس ابھرتا ہی رھتا ہے، دل میں ایک عجیب قسم کی کسک و خلش سی باقی رہ جاتی ہےکہ کاش اسے آخری دیدار کیلئے اپنے وطن کی سر زمین کا ایک ٹکڑا ہی نصیب ہوتا۔
جانا تو اس دنیا سےہم سب نے بہرصورت بھی ہے،لیکن کسی کی زندگی ایسے گزر جاتی ہے کہ بس فقط ایک نئی داستان رقم ہوجاتی جس میں کبھی تکلیفیں تو کبھی اپنوں کے بچھڑنے کا غم تو کبھی وقت کے بے رحم ہاتھوں میں شدید کسمپرسی میں زندگی گذارنے کیلئے کافی پیرانہ سالی عمر میں بھی ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔مرحوم کچھ زیادہ ہی مشکلات میں انتہائی پڑھے لکھےہونے کے باوجود جھکڑےہوئے تھے۔ میرا ن کے ساتھ قریبی تعلق تھا، میں نے انکو انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزارنے کے باوجود اعلیٰ درجے کا مہمان نواز اور انتہائی باصلاحیت با اخلاق اور غریب پرور مخلص و ملنسار شخصیت کا مالک پایا ۔مجال ہےکہ انکو گھر میں کسی مہمان کے آنے پہ ماتھے پہ کوئی شکن ابھری ہو۔ وہ اکثر دوسروں کی پریشانیوں کو دیکھ کر اپنے غم اور پریشانیوں کو نظر انداز کیا کرتے تھے۔۔مالی حالات مخدوش ہونے کے باوجود وہ غریب پرور اتنے تھے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ایک عالم تھے۔ ایک استاد بھی تھے لیکن ذرا بھی تکبر نہیں تھا۔ انتہائی باصلاحیت تجزیہ نگار کے ساتھ ساتھ وقت کی نزاکت کو سمجھنے والے اور مختلف موضوعات پر دلائل اور حقائق کی بنیاد پر بات کرنے والے بالآخر ہم سے جدا ہوگئے ۔۔اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرما کر شہادت کے عظیم ترین مرتبہ عطاء اور جنت الفردوس میں انکو اعلیٰ، بالا مقام پہ فائز فرمائے ۔۔آمین یارب العالمین۔

آخری سفر

صابر حسین بڈگام

ہمارے ایک عزیز ساتھی ماسٹر سید نظیر الدین کپواڑہ گزشتہ چھ ماہ سے پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ یہ مہینے صرف بیماری کے نہیں تھے، بلکہ صبر، حوصلے، اور امید کے مہینے تھے۔ راولپنڈی سے بار بار لاہور شوکت خانم ہسپتال جانا، طویل راستے طے کرنا، کیمو تھراپی، چیک اپ، دوائیں… سب کچھ اس امید کے ساتھ کہ شاید زندگی ایک بار پھر مسکرا اٹھے۔ہر بار وہ ہسپتال کی راہداریوں سے گزر کر، اپنا درد چھپائے، چپ چاپ لڑ تے رہے۔ کبھی دکھ نہ دیا، کبھی شکوہ نہ کیا۔ ہر ملاقات میں یہی احساس ہوتا کہ وہ زندگی سے جیتنا چاہتا ہے، وہ جینا چاہتا ہے ہمارے لیے، اپنے پیاروں کے لیے۔مگر آج…آج وہ لمحہ آ گیا جس کا تصور بھی ہمارے دلوں کو چیر دیتا ہے۔آج طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوئی۔ تھوڑا سا سنبھلے، تو لاہور شوکت خانم کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ سفر بھی امید کا تھا، شاید وہاں پہنچ کر کچھ بہتری ہو، شاید ڈاکٹر کچھ نیا کر پائیں۔ مگر… تقدیر نے کچھ اور طے کر رکھا تھا۔سفر جاری تھا، سانسیں مدھم ہوتی جا رہی تھیں…اور پھر…اسی سفر میں، اسی ہسپتال کےدروازے کے قریب،وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔شوکت خانم کے دروازے تک پہنچے…مگر وہاں زندگی کی نہیں، آخرت کی خبر ملی۔ڈاکٹروں نے انہیں دیکھ کر وفات کی تصدیق کر دی۔ان کا دنیا کا علاج مکمل ہوا،اب وہ رب کی رحمتوں کے سپرد ہو چکے ہیں۔ایک خاموش بچھڑنا ۔کتنی خاموشی سے وہ ہم سے جدا ہو گئے،نہ کوئی فریاد، نہ کوئی الوداع…بس ایک خاموش سفر جو ہمیں یقین دلاتا ہےکہ زندگی ایک لمحے کا نام ہے، اور موت ایک پل کی دوری پر ہے۔ان کا جانا ہمیں یہ سکھا گیا کہ زندگی کتنی ناپائیدار ہے۔بیماری میں بھی صبر کیسا ہوتا ہےاور یہ کہ آخری سفر کی تیاری ہر وقت ساتھ رکھنی چاہیے۔کہہ دو: جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمہیں آ کر ہی رہے گی (الجمعہ 8:)اے اللہ!ہمارے اس ساتھی کو، جو چھ ماہ تک بیماری میں صابر و شاکر رہا،تو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے۔اس کی تمام تکلیفوں کو اس کے لیے کفارۂ گناہ بنا دے،اس کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے،اور ہمیں اس کے لیے صدقۂ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرما۔آمین یا رب العالمین۔