ایم ابراہیم مچوک
ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
پردہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
آسماں مجبور ہے شمس و قمر مجبور ہیں
انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں
ہے شکست انجام غنچے کا سبو گلزار میں
سبزہ و گل بھی ہیں مجبور نمو گلزار میں
نغمہ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر
ہے اسی زنجیر عالمگیر میں ہر شے اسیر
آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں*
خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں
حضرت علامہ اقبال مرحوم کی شہرہ آفاق نظم بعنوان ” والدہ مرحومہ کی یاد میں” کو دسیوں بار پڑھا بھی پڑھایا بھی مگر اس نظم کے مذکورہ تمہیدی اشعار کے معنویت اگرچہ پہلے سے الم نشرح تھی مگر اس کے سحر میں اس قدر گرفتار کبھی نہ ہوا تھا جس قدر گرفتار آج تب ہوا جب کولی کوہستان کے معروف ”گبرے” خاندان کے آفتاب کو استور ڈوئیاں کے مشہور ”دودھے” خاندان کے آسمان پر ڈوبنے کی خبر جانکاہ سے سینہ شق ہوا۔کولی کوہستان کے ” گبری” خاندان کا وہ آفتاب کہ جسے دنیا مولوی عبدالمنان کے نام سے جانتی تھی تو عزیز و اقارب مین وہ ”چونو مولوی ساپ” کے نام سے معروف تھے۔اگرچہ بصارت والوں کے لئے ایک عالم ایک مجاہد ایک غازی ایک باپ ایک چچا ایک ماموں دنیا سے رخصت ہوئے مگر بصیرت والوں کے لیئے یہ خبر اس لیئے بھی جانکاہ تھی کہ آج ایک عہد تمام ہوا۔ایک تاریخ کا ورق بند ہوا۔ایک داستان کا حزنیہ اختتام ہوا۔

میں نے اس عہد اور اس تاریخ کو اپنے یک سطری عنوان میں سمونے کی کو شش کی ہے۔میں اگر اس کی وضاحت کرنا چاہوں تو واقفان حال کے لیئے شاید تکرار ہوگی مگر مرحوم کے ہزاروں بہی خواہوں کے لیئے یہ ایک اچنبھے کی بات ہوگی کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختون خواہ کے ضلعے کوہستان کے تحصیل کولی کے مشہور و معروف قبیلہ ”گبرے” سے تعلق رکھنے والے عبدالمنان نام کے اس آ فتاب نے ڈوئیاں استور کی ”دودھی” خاندان کے بھانجے اور داماد کی حیثیت سے پورے گلگت بلتستان میں لگ بھگ پونے صدی تک علم کی روشنی پھیلانے میں اپنی زندگی صرف کی تھی۔مرحوم میری والدہ مرحومہ کی سگی پھوپھی کا لخت جگر ہونے کے ناطے رشتے میں ماموں لگتے تھے. شعور کی عمر تک پہنچنے کے بعد میںجب جب ان سے ملا اور جو کچھ ان سے سیکھا اس کا خلاصہ اس قطعے کے مصداق تھا
حق نے کی ہیں دھری دھری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے
خود سراپا نور بن جانے سے کب بنتے ہیں کام
ہم کو اس ظلمت کدے میں نور پھیلانا بھی ہے


مرحوم کی مجاہدانہ سیماب صفتی اور سرمدی وژن اور مشن نے ہی ان کو مولانا مودودیؒ کا گرویدہ اور جماعت اسلامی کے زلف گرہ گیر کا اسیر بنایا تھا. مولانا مرحوم نے پیر عبد النصیر عرف بابا چیلاسی سے بیعت کی تھی. زندگی بھر اس تعلق میںکمی نہ آنے دی. ایسے میں اگر میں یہ کہوں تو شاید بے جا نہ ہو کہ وہ شریعت میں تو مو لانا مودودی ؒکے پیروکار تھے اور طریقت میں بابا چیلاسی کے نقش قدم پر۔اگرچہ بابا چلاسی کی طریقت مکمل طور پر شریعت کے تابع تھی مگر خدا جانے میں کیوں گاہے گاہے اپنے ممدوح کی ذات میں یہ محسوس کرتا تھا کہ شاید شریعت پر طریقت غالب آ رہی ہے۔.چونکہ طریقت تمام تر جمال اور شریعت تمام تر جلال کا آئینہ ہوتی ہے یوں میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ذات میں مجھے کبھی کبھی جلال پر جمال غالب آتا محسوس ہوتا تھا. دروغ بر گردن راوی میں نے کسی سے سنا تھا کہ بابا چیلاسی نے ان کو وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ وہ پڑھائیں مگر کل مرشد کو مرید کا جنازہ پڑھا کر دائمی سفر پر رخصت کرنے کی ویڈیو دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئی تھی. یہ آفتاب جب طلوع ہو رہا تھا تو باپ اور بڑے بھائی کے عالم دین ہونے کی وجہ سے ہر طرف شفق پھوٹ رہی تھی مگر آج جب یہ آفتاب غروب ہوا تو آسمان پر شفق پھوٹتی دکھائی نہ دی.جس کا مجھے قلق رہا. میرا کہنے کا مطلب یہ کہ انہوں نے اپنا کوئی علمی وارث نہیں چھوڑا. یہ الگ بات کہ ساری کی ساری اولاد ایک سے بڑھ کر ایک لائق اور فائق ہے۔
ایک عالم دین، مبلغ، رہبر و رہنما، مجاہد اور غازی جیسے متنوع عناصر سے مرکب بھاری بھر کم شخصیت اس لائق ہے کہ ان پر پوری کتاب لکھی جائے۔ اس وقت اقبال ہی کی زبان میں اس عالم باعمل اور بطل حریت کو بخشش کی دعا دیتا ہوں۔
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭٭٭