ریاض احمد خان
رنج سے خُوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

زندگی میں کچھ صدمات ایسے ہوتے ہیں جوروح کو چیر کر رکھ دیتی ہیں جن کے بعد الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور دل کی زبان بھی خاموشی اختیار کر لیتی ہےمیر ے بھائی کی وفات ایسا ہی ایک زخم ہے جو نہ بھر سکتاہے،نہ ہی بھلایا جاسکتا ہے۔۔۔پنتیس بر س بیت گئے وقت جیسے ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتارہا۔۔زندگی اپنے نشیب وفراز میں الجھی رہی۔مگر دل کے کسی کونے میں ایک امید زندہ تھی۔۔۔۔کہ کبھی وہ دن آئے گا جب میں اپنے بھائی کو گلے لگائوں گا۔۔۔۔لیکن جب یہ خبر ملی یہ کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں،دل جیسا سن ہوگیا۔۔آنسو خاموشی سےبہتےرہے۔۔۔الفاظ ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔پنتیس برسوں کی دوری کا بوجھ تو سہہ لیا،مگر یہ دائمی جدائی ۔۔۔یہ کرب۔۔۔ناقابل بیان ہےہم بچھڑ گئےتھےمگر دل کی دھڑکنوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہے،ایک ایسا بھائی جس نے تنہائی کو بھی تنہا کردیا۔جس نے زندگی کو صبر کے کاندھوں پر اٹھائے رکھا اور ہر تکلیف کو چپ چاپ برداشت کرتا رہا۔۔۔ان پنتیس برس کے عرصے میں وہ کتنے مشکلات ومصائب اور تختہ مشق بنتا رہا اس کا بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔انہوں نے نہ صرف وقت کا سامنا کیا بلکہ ظلم وجبر اور تشدد کی تاریک گلیوں سے گزرے ۔۔۔۔کچھ زخم جسم پر تھے۔۔۔کچھ روح پر۔۔ مگر ہر درد و غم میں صبر وشکر کا دامن تھامے اللہ اللہ کرتے رہے۔ وہ صرف میرے بھائی نہ تھے،بلکہ والد کی شفقت،ماں کی دعا،دوست کی ہمدردی اور استاد کی رہنمائی بھی تھے۔ان کے سائے میں زندگی محفوظ لگتی تھی،جب بھی کوئی مشکل آن پڑتی ،ایک آواز دیتے اور وہ دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے،ان کی موجودگی میرے لیے حوصلہ،امید اور سکون تھا اج جب ان کی جگہ دیکھتا ہوں دل ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔۔۔وہ قہقے،وہ نصیحتیں،وہ دعائیں۔۔۔ سب جیسے وقت کی ایک خاموش قبرستان میں دفن ہوچکی ہیں۔۔۔۔۔میں اس وقت ایک نہ ختم ہونے والی جدائی کاٹ رہا ہوں ،ہزاروں میل دور ،اور یہ فاصلہ آج میرے لیے دل پر پہاڑبن کر گرا ہے ۔۔۔مگر اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔مرحوم عبدالحئ خان کی زبان پر آخری وقت تک ذکر الٰہی جاری تھا کلمات تسبیحات زبان پر ورد کر رہے تھے اور اپنے مرحومین والدین،چچا جان،اور بھائی نجم دین کو یادکرتے رہے ۔آخر پر میں ان تمام احباب،دوستوں اور محسنوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے اس دکھ کی گھڑی میں میرے ساتھ آنسو بہائے اور میرے دل کے زخموں پر مرحم رکھا۔اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازےاور میرے بھائی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائےان کے تمام تکالیف کو کفارہ گناہ بنادےاور انہیں ان پیاروں کے ساتھ ملا دے جن کی یاد لیے وہ دنیا سے رخصت ہوئے اور ہمیں بھی صبر عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین
لولاب ٹکی پورہ کا زخمی گھرانہ
بن محمد
صحن کے بیچ سفید کفن میں لپٹابرادر عبدالحئی کا جنازہ رکھا تھا۔ چاروں طرف سناٹا، مگر اس سناٹے کے بیچ ایک دل دہلا دینے والی آواز گونج رہی تھی۔اے حئی بھائی! تو بھی ہمیں چھوڑ کے چلا گیا؟یہ آواز برادر عبدالحئی کی بہن کی تھی۔ وہ جنازے کے قریب مٹی پر گر گئی تھی۔ اس کے ہاتھ بار بار کفن کو تھام لیتے اور پھر بے بسی سے چھوٹ جاتے۔دوسری بہن کفن کے قریب آ کر بلک پڑی ۔۔۔ہم نے ابا کا جنازہ اٹھایا، ماں کو دفنایا، قیوم بھائی کو کھویا، نجم بھائی کو پردیس میں رو رو کے رخصت کیا… اور اب تیرا جنازہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ یا اللہ! ہم پر اتنے امتحان کیوں؟یہ جملے سن کر پورا مجمع آہ بھرنے لگا۔ بزرگوں کی آنکھیں گیلی ہو گئیں، بچے خوف سے ماں کے دوپٹے میں چھپ گئے۔ صحن کی دیواروں نے شاید ایسا رونا بار بار سنا تھا، مگر اس بار یہ چیخیں زمین کو بھی ہلا رہی تھیں۔ کل میں اس گھرکےسب سے چھوٹے ریاض بھائی سےملا۔ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، وہ بھاگ کر آیا اور مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس کے آنسو میرے کندھوں کو بھگو رہے تھے۔ وہ اتنی شدت سے رویا کہ مجھے لگا شاید وہ بے ہوش ہو جائے گا۔ وہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہا تھا:میں اکیلا رہ گیا… میں سب کچھ کھو بیٹھا… اب میرا سہارا کون ہے؟
میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، مگر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میرے دل نے کہا، یہ صرف ایک بھائی کا رونا نہیں، یہ پوری قوم کا نوحہ ہے۔ وہ آج بھی پردیس میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، تحریکِ اسلامی کا ایک کارکن ہے، لیکن اس کے دل پر صدیوں کے غم کا بوجھ ہے۔اس لمحے مجھے لگا جیسے یہ صحن ایک کتاب ہے، جس کے اوراق خون اور آنسوؤں سے لکھے جا چکے ہیں۔
پہلا ورق: قمرالدین خان صاحب کی شہادت۔
دوسرا ورق: برادرعبدالقَیوم کی شہادت۔
تیسرا ورق: برادرنجم الدین کی شہادت۔
اور آج چوتھا ورق: برادرعبدالحئی کی رخصتی۔
اب کتاب کا آخری صفحہ باقی ہے، جس پر اس چھوٹے بھائی کی داستان لکھی جائے گی جو آج بھی زندہ ہے مگر بکھرا ہوا ہے، جو چل رہا ہے مگر ٹوٹا ہوا ہے۔بہنوں کی چیخوں، بھائی کے آنسوؤں اور جنازے کے بینوں کے بیچ ایک ہی صدا گونج رہی تھی:”انا للہ و انا الیہ راجعون۔”اللہ قمرالدین خان صاحب، برادرعبدالقَیوم،برادر نجم الدین اوربرادر عبدالحئی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی بہنوں اور چھوٹے بھائی کو وہ صبر دے جو پہاڑوں سے بھی بھاری ہو۔ آمین۔






