خون، خاموشی اور بارود کے بیچ لکھی جا رہی نئی دنیا کی کہانی
تل ابیب کی تباہی کا آغاز تہران کے حوصلے سے ہوگا، اگر عالمی ضمیر بیدار نہ ہوا
دجلہ و فرات کی سرزمین پر بجتے جنگی نقارے،مشرق وسطیٰ کی افسوس ناک خاموشی امت مسلمہ بڑے خطرے کی دہلیز پر !
امن کے نغمے دفن، نفرت کی تلواریں بے نیام ،یہ ہے موجودہ دنیا کا نیا عالمی نظام
ایک دنیا، دو پیمانے۔۔یوکرین کے آنسو قیمتی، فلسطین کا لہو بے قیمت؟
اقصیٰ کے سائے میں بہتا ہوا خون اور خاموشی سے بہتا ہوا عالمی انصاف
پاکستان، ایران، اور فلسطین کے درمیان خاموش رشتہ ۔۔کیا وقت آگیا ہے کہ ہم عملی قیادت کریں؟
ایٹمی توازن، سفارتی بردباری، اور امت کی امید۔۔پاکستان کا نازک مگر فیصلہ کن کردار
سید عمر اویس گردیزی
وسطِ مشرق میں برپا ہونے والی حالیہ جنگ، جو اسرائیل اور ایران کے درمیان ایک خفیہ کشیدگی سے نکل کر کھلے میدانِ جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے، محض دو ریاستوں کا قضیہ نہیں رہا، بلکہ اب یہ ایک عالمی سیاسی و تزویراتی بحران میں ڈھل چکا ہے۔ تل ابیب سے تہران تک اور واشنگٹن سے اسلام آباد تک، ہر دارالحکومت اس جنگ کے اثرات کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ جنگی طیارے، میزائل، ڈرون، اور سائبر حملے، یہ سب اب محض فوجی کارروائیاں نہیں بلکہ نظریاتی و تہذیبی برتری کی لڑائی کا روپ دھار چکے ہیں۔ دنیا ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کیا جا رہا ہے۔ سرد جنگ کی یادگاریں ابھی ذہنوں سے محو نہ ہو پائی تھیں کہ ایک کے بعد ایک محاذ گرم ہونا شروع ہو گیا۔ ایران و اسرائیل کی حالیہ چپقلش نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کو ایک بار پھر بارود کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، بلکہ اس سے عالمی سطح پر بھی ایک شدید کشمکش نے جنم لیا ہے۔ ایران، جو صیہونی توسیع پسندی کے خلاف علمِ مزاحمت بلند کیے کھڑا ہے، آج اسرائیلی فضائی حملوں اور مغربی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل، اپنی فطری جارحیت اور غزہ میں خون آشام کارروائیوں سے انسانی تاریخ کے سیاہ ترین باب لکھ رہا ہے۔ غزہ کی صورتِ حال انسانیت کے ضمیر پر ایک کڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ بچوں کے کٹے ہوئے اعضا، ملبے میں دبی ماؤں کی سسکیاں، اور مساجد کے ملبے، وہ شواہد ہیں جو عالمی طاقتوں کے دعوائے انسانی حقوق کی قلعی کھول رہے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف فلسطینی عوام کو ان کی زمین سے بے دخل کر رہا ہے بلکہ ان کی تاریخ، ثقافت اور شناخت کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تلا ہے۔ امریکہ اور یورپ، جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعوے کرتے ہیں، اسرائیل کو اس کے جرائم پر کٹہرے میں لانے کے بجائے، اس کی پشت پناہی کرتے نظر آتے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ نے ایک اور عالمی محاذ کو کھول دیا ہے۔ یہ محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ نیٹو اور روس کی بالادستی کی جنگ ہے، جس میں معصوم عوام، بنیادی ڈھانچے، اور یورپ کا استحکام قربان ہو رہے ہیں۔ اس جنگ نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ جب بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں، تو عالمی معیشت، غریب ممالک، اور امن کے خواب بکھر جاتے ہیں۔ مہنگائی، ایندھن کی قلت، اور خوراک کی عدم دستیابی جیسے اثرات آج ہر براعظم میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگیاں اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والے جھڑپیں اس بات کی غماز ہیں کہ جنوبی ایشیا بھی کسی بڑی آگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ بھارت کی جارحانہ خارجہ پالیسی، مسلمانوں کے خلاف داخلی شدت پسندی، اور کشمیر پر ظلم، پورے خطے کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ پاکستان، جو ایٹمی طاقت کے طور پر جنوبی ایشیا کا توازن قائم کیے ہوئے ہے، اپنے صبر و حکمت کی پالیسی سے اب تک ایک بڑی تباہی کو ٹالے ہوئے ہے۔ مگر اگر عالمی طاقتوں نے مسئلہ کشمیر پر اپنی روایتی بے حسی ترک نہ کی، تو ایک چنگاری بہت بڑے شعلے کو جنم دے سکتی ہے۔ ایسے نازک وقت میں جب دنیا مختلف محاذوں پر الجھی ہوئی ہے، عرب ممالک کا کردار نہایت افسوسناک حد تک کمزور اور مصلحت پسندانہ رہا ہے۔ جن ممالک کے وسائل، فوجی طاقت اور سیاسی وزن سے عالمِ اسلام کی سمت متعین ہو سکتی تھی، وہ یا تو مغرب کی چھتری تلے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں یا اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اور قطر جیسے ممالک اگر اپنا وزن فلسطینی و ایرانی مؤقف کے حق میں ڈالیں، تو عالمی سفارتکاری کے توازن کو جھٹکا دیا جا سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اکثر عرب حکمران، اسرائیل کے ساتھ خفیہ یا علانیہ معاہدوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔ امریکہ کا کردار ہر محاذ پر ایک دوہرا چہرہ لے کر سامنے آیا ہے، ایک طرف وہ اسرائیل کو جدید اسلحہ فراہم کرتا ہے، اور دوسری طرف ثالثی کے نام پر امن کا دعویدار بنتا ہے۔ روس یوکرین جنگ میں وہ یوکرین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، مگر ایران یا فلسطین کے لیے اس کا ضمیر خاموش کیوں ہو جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، امن نہیں، قوت کے توازن اور اپنے مفادات کی پاسداری کا محافظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سامنے ایک نیا سوال کھڑا ہو چکا ہے کہ کیا انسانیت کے نجات دہندہ وہی ہوں گے جو جنگوں کے تاجر بھی ہیں؟ عالمی ضمیر کو بیدار ہونے کے لیے اب کسی اور المیے کی ضرورت نہیں، بلکہ فیصلہ کن لمحہ آن پہنچا ہے، یا تو ہم امن کی راہوں کا تعین کریں یا جنگ کے اندھیرے ہمیں نگل جائیں گے۔

ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کی جڑیں نئی نہیں۔ ایران کی جانب سے حزب اللہ، حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کی حمایت، جبکہ اسرائیل کا یک طرفہ فلسطینی علاقوں پر تسلط، اس تصادم کو دہائیوں سے ایندھن فراہم کرتے آ رہے ہیں۔ تاہم 2024 کے اواخر اور 2025 کے ابتدائی مہینے وہ نکتہ ثابت ہوئے جہاں خفیہ جنگ نے کھلے تصادم کی صورت اختیار کر لی۔ اسرائیلی فضائیہ نے تہران، اصفہان، اور نطنز میں متعدد اہم جوہری اور عسکری تنصیبات پر حملے کیے، جنہیں ’’آپریشن رائزنگ لائن‘‘ کا نام دیا گیا۔ ایران نے اس جارحیت کے ردِ عمل میں درجنوں ڈرون اور میزائل اسرائیل پر داغے، جن کا بڑا حصہ اسرائیلی آئرن ڈوم دفاعی نظام نے ناکام بنایا، مگر کچھ حملے تل ابیب اور حیفہ جیسے شہروں کو ہلا کر رکھ گئے۔

غزہ کی پٹی اس خطے کی وہ نازک شریان ہے جہاں ہر جنگ کا زخم گہرا پڑتا ہے۔ اسرائیل نے ایران پر حملے کے تناظر میں غزہ میں حماس کے خلاف ایک نئی فوجی مہم شروع کی، جس میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے، ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ بنیادی ڈھانچہ تباہ، اسپتال ملبے کا ڈھیر، اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اسے جنگی جرائم قرار دیا، لیکن اسرائیل نے اپنی کارروائی کو ’’قومی سلامتی ‘‘کا نام دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔امریکہ، جو ایک طویل عرصے سے اسرائیل کا حلیف رہا ہے، اس جنگ میں بھی غیر جانب دار نہ رہا۔ واشنگٹن نے اسرائیل کو نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی تحفظ فراہم کیا۔ امریکی بحری بیڑے خلیج فارس میں متحرک کیے گئے اور ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان ہوا۔ تاہم امریکی کانگریس، میڈیا اور عوام میں اس پالیسی پر شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ کچھ حلقے اسے تیسری عالمی جنگ کی تمہید قرار دے رہے ہیں، تو کچھ اسے ایران کے خلاف ’’جائز دفاع‘‘۔ امریکی قیادت اس وقت ایک ایسی کشمکش میں ہے جہاں ایک طرف اسرائیلی لابی کا دباؤ ہے، اور دوسری طرف عالمی رائے عامہ کا ضمیر۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عالمِ اسلام اس نازک مرحلے پر بھی انتشار کا شکار ہے۔ ایک طرف ایران تنہا کھڑا ہے، تو دوسری طرف بیشتر عرب ریاستیں اسرائیل سے خفیہ یا علانیہ تعلقات استوار کر چکی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین وغیرہ نے رسمی مذمت سے آگے بڑھنے سے اجتناب کیا۔ ترکی نے اگرچہ سخت بیانات دیے، مگر عملی طور پر اس کا کردار محدود رہا۔ صرف چند اسلامی ریاستوں نے ایران کی حمایت میں کھل کر آواز بلند کی، جن میں شام، لبنان، قطر اور یمن قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ حالیہ بحران کے دوران بھی حکومتِ پاکستان نے اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی اور ایران سے اظہارِ یکجہتی کیا، مگر اس کے اقدامات محض بیانات تک محدود رہے۔ پاکستان کی معیشت، سفارتی چیلنجز اور اندرونی عدم استحکام نے اسے عملی اقدام سے روک رکھا ہے۔ مگر پاکستانی عوام، سول سوسائٹی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید ردِعمل آیا ہے۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے، اجتماعات، اور آن لائن کمپینز جاری ہیں۔ یہ جنگ صرف ایران اور اسرائیل کی جنگ نہیں۔ اگر اس کا دائرہ پھیلتا ہے تو پورا مشرقِ وسطیٰ اور اس سے جڑے ممالک، بشمول پاکستان، اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ توانائی کے ذخائر پر اثرات، تجارتی راہداریوں میں خلل، پناہ گزینوں کا بحران، اور دہشت گردی کی نئی لہر جیسے عوامل خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بلند ہو چکی ہیں، یورپ اور ایشیا میں مہنگائی کی نئی لہر جنم لے رہی ہے، جبکہ عالمی ادارے تاحال خاموش تماشائی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، یورپی یونین کی پریس ریلیزز، اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی رپورٹس، سب کچھ اپنی جگہ موجود، مگر عملداری ندارد۔ اسرائیل نے ماضی میں بھی عالمی اداروں کو خاطر میں نہ لایا، اور اب بھی وہ طاقت و عسکری حمایت پر تکیہ کیے بیٹھا ہے۔ ایران عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہا ہے، مگر میڈیا میں اسے منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس وقت دنیا ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں عالمی انصاف کے نظریات کو ایک بار پھر شدید آزمائش کا سامنا ہے۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا تیسری عالمی جنگ ممکن ہے؟ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر حملے جاری رہے اور چین یا روس ایران کے ساتھ کھل کر میدان میں آ گئے، تو ایک عالمی جنگ کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ نیٹو کا کردار، خلیجی ریاستوں کا توازن، اور بھارت و پاکستان جیسے جوہری ممالک کی پوزیشن اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان، یمن، لبنان اور شام جیسے ممالک میں موجود غیر ریاستی عناصر بھی اس جنگ کو وسعت دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔


معروف صحافی حامد میر نے اپنے ایک خصوصی تحریر میں اس پوری صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے”چلیں ایک کام کریں ، نقشہ دیکھ لیجیے، اسرائیل کی سرحد اردن سے ملتی ہے۔ اردن کی سرحد شام سے، شام کی سرحد عراق سے، اور عراق کی سرحد ایران سے جا ملتی ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد جُڑی ہوئی ہے۔ اب ذرا تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب کنگ حسین کے ساتھ اردن کا اسرائیل سے امن معاہدہ ہوتا ہے تو اسرائیل براہِ راست شام کی سرحد تک پہنچ جاتا ہے اور موساد وہاں سرگرمِ عمل ہو جاتا ہے۔ شام میں حافظ الاسد رکاوٹ بنتا ہے، چنانچہ وہاں چودہ سال اور تین ماہ تک خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔ اس دوران شام کا فضائیہ اور فوج مکمل طور پر تباہ کر دی جاتی ہے، ملک قرض میں ڈوب جاتا ہے، بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے، اور بالآخر بشارالاسد کو چلتا کیا جاتا ہے۔ اقتدار پر الجولانی اس حالت میں قبضہ کرتا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیارے جب چاہیں شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور اہلِ شام صرف بے بسی کی آہیں بھرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب ایران اور پاکستان کے درمیان صرف عراق باقی رہ جاتا ہے۔ پہلے عراق کو اسلحہ دیا جاتا ہے، ایران میں خونی انقلاب برپا کروایا جاتا ہے، اور پھر عرب اور عجم یعنی عربی اور فارسی کو آپس میں لڑایا جاتا ہے۔ یہ خونریزی آٹھ سال تک جاری رہتی ہے، نہ کوئی فاتح ہوتا ہے، نہ مفتوح۔ ہاں، یہی اسرائیل جب دیکھتا ہے کہ عراق اور ایران حالتِ جنگ میں ہیں، تو وہ اپنے جنگی جہازوں کے ذریعے تموز کے نیوکلیئر پلانٹ پر بمباری کر کے اسے تباہ کر دیتا ہے، یہ کہہ کر کہ اس سے اسرائیل کی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد عراق کو شہ دی جاتی ہے اور وہ کویت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ کویت کی سرحد پار کرتا ہے، امریکہ بہادر پوری دنیا کو اکٹھا کر کے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ مگر تب بھی عراق میں کچھ جان باقی رہتی ہے۔ پھر یہی اسرائیل 2003 میں امریکہ کو قائل کرتا ہے کہ عراق ایسے ہتھیار بنا رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ عراق بار بار یقین دہانی کرواتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں، وہ عالمی ایٹمی توانائی کے ادارے کو مکمل رسائی دیتا ہے، مگر اس ادارے کے افراد جاسوسی پر مامور ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد عراق پر تباہ کن حملہ ہوتا ہے، شیعہ ملیشیا حرکت میں آتے ہیں، بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے، عراق کی فوج اور فضائیہ مکمل تباہ کر دی جاتی ہے، سونے کے ذخائر لوٹے جاتے ہیں، اور صدام حسین کو تختۂ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اب پاکستان اور اسرائیل کے درمیان صرف ایران رہ جاتا ہے۔ اسرائیلی جنگی طیارے جب چاہیں اردن، شام، اور عراق کے اوپر سے بلا خوف و خطر پرواز کر سکتے ہیں، بمباری کر سکتے ہیں، اور ان کو روکنے والاکوئی نہیں۔ پھر 12 جون 2025 کا وہ لمحہ آتا ہے، جب بغیر کسی پیشگی وجہ کے اسرائیل، ایران کے ایٹمی مراکز پر بمباری کرتا ہے۔ ایران کے اہم جرنیلوں اور سائنس دانوں کو ان کے بچوں کے سامنے خاک و خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ دھمکی دی جاتی ہے کہ یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر نیست و نابود نہیں کر دیا جاتا، کیونکہ اس سے اسرائیل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کا وزیرِ دفاع دھمکی دیتا ہے کہ اگر ایران نے جوابی دفاع کا حق استعمال کیا تو تہران کو جلا کر راکھ کر دیا جائے گا۔ یہ حملے اور جوابی حملے تین دن سے جاری ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ کب تک جاری رہیں گے۔ اب تصور کیجیے، خدانخواستہ اگر ایران بھی اسی انجام سے دوچار ہو جائے جس سے شام اور عراق ہوئے، تو پھرخاکم بدہن! اسرائیل کے تین چار سو جنگی جہاز پاکستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کسی بھی وقت، بغیر کسی روک ٹوک کے آ سکیں گے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کو ’’اکھنڈ بھارت ‘‘کے خواب دیکھنے والے گوبر آچاریہ جیسے لوگوں کی حمایت حاصل ہوگی، ان کے اڈے اور رہنما بھی ساتھ ہوں گے، اور فضا میں ایندھن کی ضرورت تک نہیں پڑے گی! تو کیا ہم اس وقت کا انتظار کریں؟ یورپ اور امریکہ کی انسان دوستی، عدل و انصاف کے پیمانے اور دعوے اب محض نعرے بن چکے ہیں۔ وہ صرف اُس وقت چیختے ہیں جب ان کی دم پر پاؤں پڑتا ہے، ورنہ راوی چین ہی لکھتا ہے۔ جو کچھ کرنا ہے، جیسا بھی کرنا ہے، ابھی اور اسی وقت کرنا ہے۔ ورنہ: ’’تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں کےمصداق ہم بھی اس کی لپیٹ میں ہونگے”۔
اب آتے ہیں اس جانب کہ اس عالمی مسئلہ کا حل کیا ہے؟ عالمی برادری فوری جنگ بندی کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرے۔ اسلامی ممالک OIC کو فعال بنائیں اور ایک مشترکہ پالیسی اپنائیں۔ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان پل بنے۔ اقوامِ متحدہ غزہ پر اسرائیلی کارروائیوں کی بین الاقوامی تحقیقات کرائے۔ میڈیا کو غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کی تلقین کی جائے۔ عوامی سطح پر سفارتی دباؤ بڑھایا جائے تاکہ اسرائیل کی بے مہار پالیسیوں کا سدِ باب کیا جا سکے۔

بطور ایٹمی ملک پاکستان کا ممکنہ کردار کیا ہے اور ایک تاریخی و نظریاتی ذمہ داری کیا کیا ہے، اس موضوع پر بھی اس اہم حوالہ کو تاریخی مضمون کی زینت بنانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں تاکہ جو لوگ پاکستان پر تنقید کے نشتر برساتے ہیں وہ سمجھ سکیں۔ کیونکی جب مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں میں جنگ کے بادل گہرے ہوں، اور تہران و غزہ کی گلیوں میں معصوم لہو بہہ رہا ہو، تب خطے کا سب سے بڑا ایٹمی اسلامی ملک پاکستان اپنی پالیسی، کردار اور ذمہ داریوں کے حوالے سے عالمی ضمیر اور ملتِ اسلامیہ کی نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ پاکستان نے جب 1998 میں چاغی کے پہاڑوں کو لرزا کر ایٹمی دھماکے کیے، تو یہ صرف ہندوستان کے مقابلے میں عسکری توازن کا قیام نہ تھا، بلکہ یہ مسلم دنیا کو پہلا ایٹمی دفاعی حصار دینے کا عمل بھی تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو ’’اسلامی ایٹمی قوت ‘‘کا لقب ملا۔ آج، جب عالم اسلام ایک سفاک ریاست (اسرائیل) کی بربریت اور ایک مظلوم قوم (ایران، فلسطین) کے ساتھ کھڑے ہونے کی آزمائش سے گزر رہا ہے، پاکستان کی ایٹمی حیثیت صرف ایک عسکری طاقت نہیں، بلکہ امت کی امانت بن چکی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ہمیشہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو دفاعی پالیسی کے تحت محدود رکھا ہے، مگر اس کی موجودگی خود ایک بازدار قوت (Deterrent Power) کے طور پر کام کرتی ہے۔ ایران کے خلاف اگر اسرائیل یا اس کے حلیف کوئی بڑی فوجی مہم شروع کرتے ہیں، تو پاکستان کی خاموشی ایک خلا پیدا کرے گی، جبکہ اس کا ایک مضبوط سفارتی اور اخلاقی موقف اسرائیل و امریکہ کو یہ پیغام دے سکتا ہے کہ ’’ایٹمی اسلامی دنیا جاگ رہی ہے‘‘۔ ایران کوئی عام اسلامی ملک نہیں، بلکہ ایک ایسا ملک ہے جس نے فلسطین، لبنان، شام، عراق اور اب یمن میں صیہونی سازشوں کے خلاف عملی میدان میں قربانیاں دی ہیں۔ اگرچہ مسلکی اختلافات کی آندھیاں وقتاً فوقتاً چلتی رہی ہیں، مگر پاکستان کے لیے یہ لمحہ مسلک نہیں ملت کو ترجیح دینے کا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایران کے دفاع میں سفارتی سطح پر بھرپور حمایت دے۔ او آئی سی میں ایران کے حق میں مشترکہ قرارداد لانے کی کوشش کرے۔ چین، ترکی، ملائیشیا، قطر اور انڈونیشیا کے ساتھ سفارتی بلاک تشکیل دے۔ ایٹمی قوت صرف میزائلوں کی لمبائی کا نام نہیں بلکہ سفارتی وزن کا بھی تعین کرتی ہے۔ اسرائیل، جو خود غیر اعلانیہ ایٹمی طاقت ہے، جب ایران جیسے ملک پر حملے کرے، تو اس کے خلاف پاکستان جیسا ملک اگر خاموش رہے تو یہ خاموشی عالمی ضمیر کی موت سمجھی جائے گی۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں مستقل آواز بن کر سامنے آئے۔امریکہ، یورپ اور روس کے سفارت خانوں کو باقاعدہ احتجاجی نوٹس دے۔ اسرائیلی بربریت پر بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کا موقف نمایاں کرے۔پاکستان کو چاہیے کہ اپنی پارلیمنٹ میں فوری طور پر قرارداد مذمت پاس کرے جس میں اسرائیل کو ایک بار پھر کلئیر انداز میں دہشتگرد ریاست قرار دیا جائے۔ فیلڈ مارشل اور ڈی جی آئی ایس آئی کا مشترکہ موقف آئے کہ پاکستان امت کے تحفظ میں خاموش نہیں رہے گا۔ عوامی سطح پر یومِ حمایتِ ایران و فلسطین کا اعلان کیا جائے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستانی قوم امت کے ساتھ ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت، بچوں کا قتلِ عام اور انسانی حقوق کی پامالی کوئی مخفی حقیقت نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقوامِ متحدہ میں غزہ میں جنگی جرائم کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرے۔ عرب و اسلامی ممالک کو ملا کر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے روڈ میپ پیش کرے۔ رفاہ، خان یونس اور نابلس کے متاثرین کے لیے باقاعدہ طبی، مالی و غذائی امداد روانہ کرے۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں الجھنے سے گریز کرنا چاہیے جو براہِ راست اس کی سرزمین پر نہ ہو، مگر یہ احتیاط خاموشی کا جواز نہیں بن سکتی۔ پاکستان کو تدبیر اور جرأت کے حسین امتزاج سے کام لینا ہو گا، نہ جنگ کا علم بلند کرنا ہے، نہ خاموشی کا خنجر تھامنا ہے۔ امن کے علمبردار بن کر ظلم کی مخالفت کرنا ہی بہترین کردار ہو گا۔ایٹمی حیثیت کو عقلی و اخلاقی قیادت کے طور پر بروئے کار لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ضمیر کی قوت، ایٹم سے بڑی ہوتی ہے، ایٹمی طاقت پاکستان کو دنیا میں ایک منفرد مقام دیتی ہے، مگر اصل قوت اس کے نظریاتی اثاثے، تاریخی ورثے، اور ملتِ اسلامیہ کی قیادت کے شعور میں ہے۔ آج جب اسرائیل ظلم کی انتہا پر ہے، ایران تنہا کھڑا ہے، اور فلسطین کے بچے شہید ہو رہے ہیں، تو پاکستان کو اپنی زبان، قلم، سفارت، معیشت، اور دفاع، سب کو امت کی حرمت کی پاسبانی میں جھونک دینا ہو گا۔کیونکہ اگر پاکستان خاموش رہا، تو وہ صرف ایران نہیں، بلکہ پوری اسلامی دنیا کو ایک اخلاقی و سیاسی یتیمی کی طرف دھکیل دے گا۔

لہو کی زبان میں لکھی ہوئی آزادی کی گواہی: شہیدِ حریت برہان مظفر وانی کی برسی پر کشمیر کے بہتے زخموں، بھارتی سفاکیت اور عالمی ضمیر کی خاموشی کے خلاف ایک نوحہ آخر میں اب کہ جب ہم مشرقِ وسطیٰ، یوکرین، اور غزہ کی تباہ کاریوں ،ایران اسرائیل جنگ کا ماتم کرتے ہیں، تو ہمیں کشمیر کی دھرتی پر بہتا ہوا وہ لہو بھی یاد رکھنا ہوگا، جو ہر روز خاموشی سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے۔ جہاں برہان وانی شہید جیسے نوجوان صرف آزادی کا خواب دیکھنے کی پاداش میں مارے جاتے ہیں۔ 8جولائی2016 میں شہید ہونے والابرہان مظفر وانی شہید اب ایک فرد نہیں، ایک فکری علامت بن چکا ہے۔ ایسی علامت جس نے اپنے لہو سے سوال لکھا ہے ’’کیا دنیا کا امن ہمارے خوابوں سے الگ ہے؟‘‘ اس مضمون کے آخر میں برہان مظفر وانی شہید کی شہادت پر بھی چند جملے بطور خراج عقیدت اور سوالیہ انداز میں
لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کبھی کوئی قوم وقت کی عدالت میں اپنے آنسو پیش کرتی ہے، کبھی اپنے بیٹوں کے جنازے، اور کبھی اپنے مقدس لہو سے رقم کی ہوئی کہانیوں کو۔ کشمیر کی وادی، جو قدرت کے ہونٹوں پر تبسم تھی، آج درد کے نوحوں سے گونج رہی ہے۔ جہاں کبھی بہار کے رنگ کھلتے تھے، آج وہاں لہو کے دھبے دائمی خزاں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ برہان مظفر وانی شہید، وہ نام جو محض ایک شخص نہیں، بلکہ ایک نظریہ تھا۔ وہ آنکھیں جن میں آزادی کے خواب سلگتے تھے، وہ آواز جو قابض کی بندوقوں کو چیلنج کرتی تھی، اور وہ لہجہ جو مظلوموں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ وہ چہرہ جو سوشل میڈیا سے نکل کر ہر کشمیری کے دل کی دیوار پر کندہ ہو چکا ہے۔ برہان، اس نسل کا بیٹا تھا جسے ہندو توا کے جنونی زخموں میں پلنے کی عادت ہو چکی ہے، لیکن جو سر جھکانا نہ جانتی تھی۔ برہان شہید کا جرم یہ نہ تھا کہ وہ بندوق اُٹھائے ہوئے تھا، بلکہ اس کا اصل ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ زندہ ضمیر رکھتا تھا۔ اس نے ایک خواب دیکھا، اور پھر اپنے لہو سے اس کی آبیاری کی۔ وہ 8 جولائی 2016 کو شہید ہوا، مگر ہر سال اس کی برسی پر ہزاروں دلوں میں زندہ ہو جاتا ہے۔ اس کی شہادت، بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جو کبھی مٹایا نہ جا سکے گا۔ اہلِ دنیا! کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ ایک قوم کے نوجوانوں کو صرف اس لیے گولیوں سے چھلنی کیا جائے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں؟ کیا انسانی حقوق صرف یورپ کے شہروں میں بسنے والے بچوں کے لیے مخصوص ہیں؟ کشمیر کی وادی ہر روز برہان وانی جیسے ہزاروں نوجوانوں کے جنازے اٹھا رہی ہے، اور دنیا کی آنکھوں میں انسانیت کی نمی نہیں، مفادات کا دھند لا پن ہے۔ آخر کب ختم ہوگی یہ خوں آشام داستان؟ کب رکے گا بارود کی بارش کا یہ شیطانی سلسلہ؟ کب خاموش ہوں گی بندوقیں، اور کب کھلیں گے سکول کے دروازے، جہاں آج بھارتی فوجی بوٹوں سے علم کو روندتے ہیں؟ کب بہےگا قلم کا سیاہ، اور کب تھمے گا لہو کا شور؟ کب انسانیت فتح پائے گی، اور کب ظلم کا تاج زمین پر پٹخا جائے گا؟ برہان وانی شہید، ہم تمہارے لہو کے قرض دار ہیں۔ تم نے جو مشعل جلائی تھی، وہ آج بھی اندھیروں میں روشنی دیتی ہے۔ تم نے جو سوال چھوڑا تھا، وہ آج بھی اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور ہر اسلامی ریاست کے دروازے پر دھڑکتا ہے:
’’کیا ہماری آزادی کی قیمت اتنی سستی ہے کہ تم اپنی زبان تک بند رکھو؟‘‘
یہ جنگ صرف اسلحوں کی گھن گرج نہیں، بلکہ انسانیت کے بنیادی اقدار کا امتحان ہے۔ تہران سے غزہ اور تل ابیب سے اسلام آباد تک، ہر دل، ہر فکر، ہر ضمیر آج کسی نہ کسی زاویے سے زخمی ہے۔ اگر دنیا نے آج بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو شاید تاریخ آنے والے کل میں ہمیں بزدل، بے حس اور مفاد پرست نسل کہہ کر پکارے گی۔ اللہ کرے کہ انسانیت غالب آئے، امن جیتے، اور جنگ ہار جائے۔ یہ سطور محض ایک صحافی کا تبصرہ نہیں بلکہ انسانیت کے رونے کی گونج ہے۔ میں بطور صحافی و کالم نگار اس یقین کے ساتھ یہ تحریر پیش کر رہا ہوں کہ الفاظ اگر ضمیر کو جھنجھوڑ سکیں، تو شاید جنگ کے نعرے خاموش اور امن کی سرگوشی بلند ہو جائے۔ ہماری نسل کا فرض ہے کہ ہم اس جنگ کو رُکوانے میں اپنا کردار ادا کریں، چاہے قلم سے ہو، زبان سے ہو یا دعا سے۔ اللہ ہمیں حق کہنے اور سننے کی توفیق دے۔ آمین۔
***
سید عمر اویس گردیزی کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے ۔معروف صحافی اوردانشور ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیں اور بلامعاوضہ لکھتے ہیں