ایران اور افغانستان

میرافسرامان

ایرانی وزیر خارجہ سعید خاتب زادہ نے افغانستان کی تازہ صورت حال پر کہا ہے کہ امریکہ اور مغرب نے طالبان کے خوف سے اپنے سفارت خانے بند کر دیے ہیں۔ جبکہ ایران کے کابل اور ہرات کے سفارت خانے کھلے ہیں۔ طالبان کی فتح کے بعد ایران کی خواہش ہے کہ ان کے ساتھ تعلقات بہتر رہیں۔ ۳۲ برس پہلے جب مزار شریف میں گیارہ ایرانی سفارت کار قتل ہوئے تھے تو ایران اور افغانستان کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ ایران میں طالبان کے حق اور مخالفت میں ملا جلا رد عمل ہے۔ایران نے اپنے میڈیا کو ہدایت کہ ہے کہ ماضی میں طالبان کو وحشی،مجرم اور ایسے القابات سے جو نوازہ جاتا رہا ہے،اس سے اب احتیاط کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل ۰۹۹۱ء سے ۱۰۰۲ء تک انہی غیر مناسب القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ایران کے سیکورٹی اداروں نے کہا کہ طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔بیرون ملک میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے ایران کے اسلامی گارڈز کی طاقتور شخصیت اسماعیل قانی کو افغانستان میں جنگجو وں کو منظم کرانے والا پرانا کھلاڑی ہے۔۔نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد ایران میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔مشرقی ایرانی سرحد پر اثر رکھنے والے ایرانی حکومت کے حمایتی معروف سنی عالم مولوی عبدالحامد اسماعیل زحی نے طالبان کی فتح کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔وہ کہتے کہ طالبان وہ نہیں جو بیس برس قبل تھے۔طالبان نے بہت کچھ سیکھا اور اپنے پرانی خیالات تبدیل کیے ہیں۔افغان ایران کے پڑوسی ہیں اس لیے ایران ان کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ طالبان نے اس سے قبل ہزارہ کیمونٹی کاگورنر منتخب کیا۔ طالبان نے اہل تشیع کی امام بارگاہوں اور کیمونٹی پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ داعش یا الشمس گروپ نے کیے تھے۔ یہ دونوں ایران کے مخالف ہیں۔مغربی کابل میں شیعہ برادری کے بچیوں کے اسکول پر حملے کی بھی مذمت کی۔طالبان نے شیعہ برداری کو مزار شریف میں عاشورہ کا جلوس نکانے کی اجازت بھی دی اور دس محرم کو چھٹی کا باقاعدہ اعلان بھی کیا۔ یاد رہے کہ ۱۰۰۲ء میں ایران نے شمالی اتحاد اور نیٹو فورسز کی افغانستان میں مداخلت کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے امارت اسلامی افغانستان ختم کر دی گئی تھی۔مگر اب طالبان بھی ایران سے اپنی حکومت کی حمایت کے خواہش مند ہیں۔ایران کے ساتھ افغانستان کی ۰۷۵ میل لمبی مشترک سرحد ہے۔اس کو نفع بخش تجارت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ دور سے قبل ایرانی حکومت نے بڑی مہارت سے انتہا پسندسیاست شروع کی۔شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور کے ایک طاقت ور شخصیت سابق وزیر انٹلیجنس اور موجودہ صدارتی مشیر علی حسن کی طرف سے بیان آیا تھا کہ ا یران عظیم الشان سلطنت بن چکا ہے۔عراق ہمارا ہے۔کھوئی ہوئی زمین واپس لے رہے ہیں۔ اسلام پسندوں (سنیوں)اور نئے عثمانیوں سے مقابلہ کریں گے۔ترک ہمارے تاریخی مخالف ہیں۔

اس بیان سے ایران کی پالیسی کو دیکھیں اور رضا شاہ پہلوی دور کی پالیسیوں کا معائنہ کریں تو بات سمجھ آرہی ہے۔ رضا شاہ نے مسلمانوں سے ناطہ کاٹ کر چار ہزار سال پرانی تاریخ سے ناطہ جوڑنے کا جشن بھی منایا تھا۔وہ مسلمانوں سے ناطہ توڑ کے امریکا کا بہترین دوست بن گیا تھا اور ایشیاء میں امریکی ایجنٹ قرار پا یا تھا۔ یہ صرف اس لیے ہوا تھا کہ اُس نے امریکہ کی خواہشات کے تحت اپنی اسلامی شناخت کو ختم کیا تھا اور تاریخ کی پرانی غیر اسلامی ایرانی حکومت سے جوڑا تھا۔ امریکا نے ایسی ہی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مصر کے حکمرانوں کا ناطہ بھی اسلام سے توڑ کر مصر کے تاریخی فرعونوں سے جوڑنے کا مشن بھی پورا کیا تھا۔تیس سال تک امریکی پٹھو حکمران مصر کی مظلوم رعایا پر حکمرانی کرتے رہے۔یہی پالیسی عظیم مسلم ترکوں کے ساتھ بھی برتی گئی اور کمال اتاترک کو سامنے لایا گیا اور اُس نے پھر ترکی سے اسلام کو نکالا تھا۔ ترکی میں اسلام سے متعلق ایک ایک چیز ختم کی گئی تھی۔پاکستان میں بھی ڈکٹیٹر مشرف کو اِس بات کے لیے کھڑاکیا گیا تھا اور اُ س نے بیان دیا تھا کہ میرا آئیڈئیل کما ل اتاترک ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف نے سب سے پہلے پاکستان اور روشن خیال پاکستان کی اصطلا ہیں بھی اسی لیے گھڑی تھیں۔ مشرف کے بعد صدر زرداری اور نواز شریف بھی اِسی اصول پر پاکستان میں بڑی مہارت سے عمل کر رہے ہیں۔ تعلیمی نصاب سے ایک ایک کرکے اسلامی دفعات ختم کی جارہی ہیں۔۱ ۲ویں ترمیم کے ذریعے بڑی مہارت سے صرف داڑھی والوں کو ہی دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ بات دور تک نکل گئی۔ بات ایران کی حکومت کے عزائم سے شروع ہوئی تھی۔ ایران کو امریکی گرفت سے نکال کررضا شاہ کے خلاف علامہ خمینی ؒ نے پیرس سے جلاوطنی کے دوران تحریک شروع کی اور رضا شاہ کے چار ہزار سالہ قومی بت کو پاش پاش کر کے شیعہ نہیں اسلامی انقلاب بر پاکیا تھا اور امریکا کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ خمینی ؒ نے نعرہ دیا تھا لا شیعہ۔ لاسنیہ۔۔۔ اسلامیہ۔ اسلامیہ۔ اس انقلاب کو اسلام پرگہری نظر رکھنے والے مسلم دنیا کے اکابرین نے سنی شیعہ سوچ کو ایک طرف رکھتے ہوئے خوش آمدید کہاتھا۔ اس لئے کہ اس انقلاب میں مسلمانوں کے ایک فرقہ شیعہ کی بات کرنے کے بجائے اسلام کے آفاقی سوچ کی بات کی گئی تھی۔ اسلامی انقلاب کی آفاقیت کی کچھ جڑیں اب بھی ایران کے معاشرے کے اندر موجود ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے حکمرانوں کی ذاتی خواہشات کہ وہ ہمیشہ صحیح پٹری سے اُتر جاتے ہیں۔ انہیں صرف اقتدار سے واسطہ ہوتا ہے۔ یہی کچھ ایران کے حکمرانوں نے بھی کیا۔ وہ شیعہ سنی اتحاد اور اسلام کے آفاقی پیغام کو پس پشت رکھ کر پھر اسلام کے ازلی دشمن امریکا کے ساتھ ا تحاد کر کے شام،عراق، یمن اور مشرق وسطیٰ جہاں سنی اکثریت ہے پر بھی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور امریکا کے ساتھ مل کر ان ملکوں کی شیعہ آبادی کو اُکسا رہے ہیں وہ اسطرح ایک بار پھر امریکہ کے چنگل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔اور اسلام کی آفاقی سوچ سے ہٹ کر فرقہ واریت /قومیت کی بند گلی والی سوچ کے پیچھے پڑھ گئے ہیں۔ امریکا نے ایرانی حکمرانوں کو رضا شاہ پہلوی والا سبق پھر سے پڑھانا شروع کر دیا اور وہ اپنا رشتہ اسلام سے توڑ کر اسلام سے پہلے والی پرانی ایرانی تاریخ کے پجاری بنتے جا رہے ہیں۔

اسی سوچ کا اظہار علی حسن صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔ اگر اس سوچ کو موجودہ حالات سے پہلے کے حالات سے ملا کر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے ایرانی حکمرانوں کو پہلے طالبان کے خلاف استعما ل کیا۔ طالبان اسلامی حکومت جس نے امریکا کے خلاف کوئی بھی دہشت گردی نہیں کی تھی، اُسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر افغانستان کا تورا بورہ بنا دیا تھا۔ شمالی افغانستان جس میں شیعہ ہزارہ لوگ رہتے ہیں اُن کو ایرانی حکمرانوں کی ایما پر طالبان کے خلاف کیا گیا۔ اور ایک وقت آیا کہ طالبان اور ایران کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف سرحدوں پر پہنچ گئیں تھیں۔ ایران کی حمایت یافتہ افغان حکومت میں شیعہ افراد کی زیادہ تعداد داخل کر دی گئی ہے۔عراق شام کے سرحدی علاقوں میں نئی قائم ہونے والی داش سنی حکومت سے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی ملیشیا لڑ تی رہی۔جس پر ایران نے آگے بڑھ کر عراق کو اپنا حصہ قرار دے دیا ہے۔ یمن میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ شام میں بھی شیعہ اقلیت کی بشار حکومت کی مدد کی جا رہی ہے۔یہود و نصارا نے بڑی مہارت سے سنی شیعہ کو مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ موجودہ تناظر میں ہم اپنے کالموں میں اکثر اس بات کو زور دے کر لکھتے رہتے ہیں کہ مسلم دنیا کے جن ملکوں میں شیعہ آبادی زیادہ ہے اُس میں شیعیوں کو حکومت کا حق ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں سنی آبادی زیادہ ہے اُن ملکوں میں سنیوں کو حکومت کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ رہا شیعہ سنی عقائد تو اس کا فیصلہ آخرت پر چھوڑ دینا چاہے۔ اِس کا اللہ فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پر ہے اور کون حق پر نہیں ہے۔ اسلامی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ یہود نصارا کی مسلمانوں کولڑانے والی پالیسیوں کو سمجھیں اوراس فلسفے پر عمل کر کے ہی مسلمان اپنے ازلی دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایران حکومت کو علی یونسی کے بیان سے رجوع کرنا چاہیے۔ طالبان کی فتح کو ایک اسلامی پڑوسی ملک کی فتح جانتے ہوئے اس سے اپنے تعلقات بہتر کرنے چاہیے۔ پاکستان کے خلاف کویران میں افغان مہاجرین نے جونعرے لگائے ہیں ان سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ افغانستان،پاکستان اور ایران اچھے پڑوسیوں کی طرح زندگی کا آغاز کریں۔ ان تینوں ملکوں اور ترکی کو آگے بڑھ کر”اسلامی اتحادریاست ہائے مدینہ“ کی تکمیل کرنا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کی اقوام متحدہ قائم کرنا چاہیے۔ ورنہ ایسی باتوں کا رد عمل سنی حلقے سے آئے گا جو مسلمانوں کے لیے نیک شکون نہیں
ہو گا۔ جبکہ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس بات کو شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے اس شعر میں بیان کیا ہے:۔

بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

٭٭٭

میر افسر امان اسلام آبادکے معروف دانشور،کالم نگار اور مصنف ہیں