ایسٹ انڈیا کمپنی

احسان مہر

جنوبی ایشیاء میں برصغیر پاک و ہند زرخیز اور زرعی خطے کے طور پر اپنی پہچان رکھتا ہے، قدرتی چاروں موسم، سبزیوں پھلوں اور اناج کی فراوانی، قیمتی معدنیات، جغرافیائی حدود اور لاتعداد وسائل کی دستیابی اس کی اہمیت مزید بڑھا دیتے ہیں، تاریخ میں کئی بار بیرونی حملہ آور اس خطے کے وسائل پر قابض ہوئے، اور ان وسائل کا خوب ناجائز فائدہ اٹھایا، دور جدید کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح ماضی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی اس خطے پر اپنی نحوست کے پنجے گاڑے۔ 31 دسمبر 1600ء انگلستان کی ملکہ الزبتھ اول نے تجارت کی غرض سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔تاکہ ملکی دولت اور قومی وقار میں اضافہ ہو، آگے چل کر ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے ملازمین نے تجارت کے نام پر مشرقی ممالک کے وسائل لوٹنے کے لیے کھلی لوٹ مار کی، اندرونی اختلافات کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ولیم بولٹس (willimam Bolts ن)ے جب ان حقائق سے پردہ اٹھایا تو اسے کمپنی کی ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور انگلستان واپس پہنچ کر 500 صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی کھلی لوٹ مار کا پردہ چاک کر دیا۔
ڈیجٹل ترقی کے موجودہ دور میں بھی عالمی طاقتیں، عالمی مالیاتی ادارے، ورلڈ بنک، آئی،ایم،ایف کے ذریعے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں معیشت کی بحالی اور مختلف شعبوں میں تعاون کے نام پر جو فنڈز جاری کیئے جاتے ہیں ان کے پیچھے بھی ایسٹ انڈیا کمپنی” کی سوچ کار فرما ہوتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کے نام پر جغرافیائی حدود کو پامال کیا اور ناجائز طور پر حکومتی اختیارات سلب کر کے اپنی حکومت قائم کی جس نے آگے چل کر متحدہ ہندوستان پر قبضہ جمالیا –
سوشل میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اسی ڈگر پر چل کر قیمتی ملکی سرمایہ کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث پائی گئیں ہیں۔
امریکی ایف، بی، آئی اور نیدر لینڈ پولیس کی مشترکہ کا روائی میں پاکستان میں موجود ایسی 39 ویب سائیٹس کو بند کرنے کا کہا گیا ہے جنہیں 2020 ء سے فراڈ، اور سپیکینگ روائی میں ٹولز فروخت کرنے کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں اور جعلی ٹریڈنگ ایپس آن لائن سرمایہ کاری کے نام پر لاکھوں پاکستانیوں کو کروڑوں روپے سے محروم کر چکی ہیں، میڈیا اطلاعات کے مطابق انشورنس کے نام پر بڑی رقم بٹورنے والی بعض کمپنیاں اپنی انویسمنٹ سے بھی 10 گنا زیادہ منافع کے ساتھ ملک سے باہر جا چکی ہیں۔

ایسے غیر سنجیدہ معاشی حالات میں پاکستانی وزیر اعظم اگر یہ کہے کہ اس بار ہم آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیں گے، اور یہ کہ آئی۔ ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہے تو اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے، کیا ڈیجیٹل اعداد و شمار قوموں کی ترقی کا پیمانہ ہو سکتے ہیں۔
ایسا ملک جہاں بلا سود قرض فراہمی کے نام پر عوام سے کروڑں روپے (فارم جمع کروانے کی مد میں وصول کر لیے جاتے ہوں۔ ایسےملک میں ڈیجٹل ایپس میں ”Loan” کی آپشن کیا معنی رکھتی ہے۔؟ اور ایسے حالات میں آئی ایم ایف وفد کی چیف جٹس آف پاکستان سے ملاقاتیں کسی بات کی غمازی ہیں۔آن لائین سرمایہ کاری نے ہمارے ذہنوں کو بڑی حد تک متاثر کیا۔ ہے، ماہرین کے مطابق ” موبائل” اور سوشل میڈیا ایلیس کے استعمال کے دوران ہمارا 80 فیصد دماغ نشری مواد کے زیر اثر ہوتا ہے، ایسے پبلک مقامات جہاں فری وائی فائی ” کی سہولت موجود ہو ہیکرز کے شکار کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں۔
اسرائیل نے حزب اللہ راہنماؤں کے خلاف ”پیجر” موبائل ڈیوائس کو خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، ملٹی نیشنل اور ٹیلی کمیونکیش کمپنیاں ملکی سرمایہ کے ساتھ ساتھ ملکی سیکیورٹی کے لیے بھی خطرے کا باعث بن سکتی ہیں، موبائیل ڈیوائس: ڈیجٹل واچ، اور ”ڈیٹا” خطر ناک ہتھیار کے طور پر ہمارے ساتھ ساتھ ہیں۔ موبائل اکاونٹ سے بھاری رقوم کی خر دو برد اور اکاؤنٹ پیکنگ، صارف کی ذاتی معلومات کا تحفظ (سائبر سیکیورٹی) دور حاضر نیا سر درد بن چکا ہے۔
دنیا میں پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے (کمزور حکمران) بہت کم ریاستی ٹیکس کے عوض جدید سہولتوں کے حصول کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے جس طرح آزاد چھوڑ دیتے ہیں یہ بھی ایک المیہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم دنیا بھر کی معلومات تک رسائی کی خواہش میں اپنا قیمتی قومی سرمایہ اپنے ہاتھوں ضائع کر رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی سطح پر آئی ٹی سے وابستہ نوجوانوں کو اس شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے مدد و تعاون فراہم کیا جائے (جماعت اسلامی کی طرف سے ملک بھر میں شروع کیے گئے ایسے پروگرام اہم سنگ میل ثابت ہونگے) (ان شاء اللہ)تا کہ بحیثیت قوم ہم دوسروں کا دست نگر بننے سے بچ سکیں۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سیر آدم ہے میر کن فکاں ہے زندگی

احسان مہر