ایک اور عظیم شخص ہم سے بچھڑ گیا

چودھری نذیر احمد

شہید چوہدری محمد ابراہیمؒ 1990 ء سے حزب المجاہدین سے وابستہ تھے۔ میدان کارزار اور بیس کیمپ میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے رہے۔شہید تین دہائیوں سے قابض بھارتی افواج کے خلاف برسرپیکار رہے اور ہزاروں مجاہدین کی رہبری کرتے رہے۔ شہید کی جرأت اور بہادری کی ایک لمبی داستان ہے، حزب المجاہدین کے اس نڈر کمانڈر نے حزب کے ساتھ رہتے ہوئے ہی اپنی جان جان آفرین کے حضور پیش کردی۔وادی نیلم ہو یا وادی جہلم شہید چوہدری ابراہیم نے ہر محاذ پر اپنے آپ کو پیش کیا۔ شہید نے اپنی جوانی کا پوراعرصہ بھارتی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے میدان کارزار میں گذارا اور تنظیم کے ہر حکم پر ہمیشہ صف اول میں رہے۔شہید کا حوصلہ آخری دم تک جوان تھا آج بھی اگر بہادری کی بات کی جائے تو اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہوگا کہ چوہدری ابراہیم کو انہی الفاظ سے یاد کیا جاتاہے کہ وہ ایک نڈر مجاہد کمانڈر تھے۔ حزب المجاہدین کے اس بہادر مجاہد نے بہادری کے ساتھ ہمیشہ ہزاروں مجاہدین کو بحفاظت اپنے منزل مقصود تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھائی۔1998 ء یہ وہ دن تھے جب اپنے پہنے ہوئے کپڑوں سے بھی دشمن کی بو آرہی تھی ایسے میں شہید ابراہیم کے ساتھ بہت منافق اور مخبروں نے ملنگام بانڈی پورہ میں سرینڈر کردیا مگر عظیم کمانڈر نے بلند حوصلے کے ساتھ اللہ کی مدد کو شامل حال رکھا اور بھارتی درندہ صفت افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ٹاسک فورس اور بھارتی ایجنٹوں نے آپ کے اہلخانہ کو گرفتار کرکے بھارتی فوج کے کیمپ میں کئی دن بند ررکھا مگر اپ نے اپنے اہل وعیال کی فکر کئی بغیر اپنی جہادی سرگرمی کو مزید تیز کردیا اور ملنگام میں یہ اعلان کردیا کہ اگر پورے گھر کو بھی اڑا دیا جائے تب بھی اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤں گا جس کی وجہ سے سرینڈر کرنے والوں کو اپنی جان کا خطرہ پڑگیا۔اس وقت افغان سرینڈری کے سرپنچ جس نے پورے ملنگام کے عوام کو یرغمال بنا رکھا تھا آئے روز عورتوں اور بچوں کو بھارتی فوجی کیمپ میں بے گناہ لوگوں کو حاضر کرتا تھا اس دوران شہید چوہدری ابراہیم نے اپنے دیگر ذمہ داروں کے ساتھ مشورہ کرکے اس مخبر کو ہمیشہ کے لئے جہنم واصل کیا اور گاؤں کے لوگوں نے چوہدری ابراہیم کو دعائیں دیں۔1994 ء میں حزب المجاہدین کے اس عظیم کمانڈر کے اہل خانہ کوکئی دفعہ آرمی کیمپ میں قید کردیا مگر پھر بھی چوہدری ابراہیم نے دشمن کی اس ناپاک عزائم کو مسمار کرتے ہوئے اپنے پورے اہل و عیال جس میں عورتوں اور بچوں کی کثیر تعداد تھی رات کی تاریکی میں فوجی کیمپ سے نکالنے میں کامیاب ہوئے اوردو ماہ ویران جنگلوں میں بھوک و پیاس کے کو برداشت کیا اور بالآخر بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے کپواڑہ کے ڈاٹسن علاقے میں روپوش ہوگئے۔سخت سردی کے موسم میں جنگلوں میں وقت گذارا،دشمن نے ان کی تلاش جاری رکھی اور اعلان کیا جو چوہدری ابراہیم کے عیال کو پکڑنے میں مدد کرے گا اسے انعام دیا جائے گا۔چوہدری ابراہیم عظیم کمانڈر کی سر کی قیمت بھی رکھ دی گئی۔آخر کار 1994 ء میں جب پہاڑوں پر برف جمی ہوئی تھی،سخت سردی کا موسم تھا،سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا اور دوسری طرف بھارتی فوج ان کی تلاش میں تھی،اس کے باوجود مجاہد کمانڈرچوہدری ابراہیم سرحد کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئے،نومبر کی وہ تاریک اور یخ رات تھی وہ بھارتی فوج کی پکٹ کے قریب سے گذر رہے تھے کہ ایک برف کا تودہ آگرہ جس نے پورے گروپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس حادثے میں کمانڈر ابراہیم کی شریک حیات اور ایک دوسال کی معصوم بچی اس کٹھن سفر میں ہی شہید ہوگئے۔اس عظیم کمانڈر کو جس طرح اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں میں ڈالا لیکن اس قدر ان کے اندر اللہ نے ان کو صبر بھی عطا کیا۔انڈین آرمی پکٹ کے قریب ہونے کی وجہ سے لاشوں کو ٹھکانے لگانا مشکل تھا جس سے باقی عیال او رمجاہدین کو زندہ پکڑ جانے کا خطرہ تھا اس لئے چوہدری ابراہیم نے باقی گروپ کے ساتھیوں جس میں ان کی کچھ گھر کے لوگ تھے کو آگے پہچانے کی ٹھان لی اور راتوں رات سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اگلی صبح دوبارہ باڑر کراس کرکے کمانڈر ابراہیم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس جگہ پہنچ گئے جہاں ان کی اہلیہ اور ان کی بچی ملبے تلے دبی تھی۔اپنی شریک حیات کی لاش مل گئی لیکن بچی کی لاش بہت تلاش کرنے میں ناکام ہوئے۔انہوں نے اپنی شریک حیات کی لاش سرحد عبور کرنے کے بعد قریبی ایک بستی میں دفن کی لیکن بچی کی لاش نہ ملنے کا انہیں بہت افسوس تھا۔چوہدری ابراہیم نے تحریک آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں دیں۔ان کی گھر والوں کی بھی بہت قربانیاں ہیں،ان کی والد محترم کو بھارتی فوج نے ٹارچر کرکے ان کی ٹانگ توڑ دی،جبکہ ان کی ایک بھائی کو بھارتی فوج نے شہید کردیا۔

اس کے علاوہ ان کے خاندان دیگر افرادبھی تحریک آزادی کے دوران بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید کئے گئے۔انہوں ہر دشمن کے وار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن دشمن کے سامنے کھبی سرینڈر نہیں کیا اور مرتے دم تک ان کے اندر جہادی ولولہ موجود تھا اور مظلوم کشمیری عوام کا دکھ ان کو اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔3 جولائی 2021 ء کو وہ پچپن سال کی عمر میں مظفرآباد میں جام شہادت نوش فرماگئے۔اس عظیم کمانڈر کی نماز جنازہ ڈپٹی سپریم کمانڈر حزب المجاہدین خالد سیف اللہ نے پڑھائی اس کے علاوہ کمانڈربخت زمین،کمانڈر شمشیر خان،کمانڈر عزیر غزالی،کمانڈر امتیاز عالم،کمانڈر طاہر اعجاز سمیت قائدین جماعت اسلامی اور انصار و مہاجرین کی بڑی تعداد نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔اس موقعہ پر خالد سیف اللہ ڈپٹی سپریم کمانڈر حزب المجاہدین نے شہید کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ چوہدری ابراہیمؒ تین دہائیوں سے بھارتی فوج کے خلاف برسر پیکار رہے اور ہزاروں مجاہدین کی رہبری کی اور آج اپنے رب کے حضور اپنی جان پیش کی اور حزب کی طرف سے انہیں نشان جرأت امتیاز پیش کیا۔شہید ؒنے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ حزب المجاہدین کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہنا اور تحریک آزادی کے لئے ہمیشہ صف اول میں رہنا۔اللہ تعالیٰ چوہدری ابراہیم شہید کی شہادت قبول فرمائے اور وطن عزیز کشمیر کو بھارت سے آزادی نصیب فرمائے۔آمین

٭٭٭